Urdu News

محققین کی فہرست میں شبلی کا درجہ بہت بلند ہے: پروفیسرسرا ج اجملی

دی مسلم ویلفیئر اینڈ ایجوکیشنل سوسائٹی اعظم گڑھ کے زیر اہتمام فاطمہ گرلس کالج داؤد پور میں دو روزہ قومی سمینار کا افتتاح

دی مسلم ویلفیئر  اینڈ ایجوکیشنل سوسائٹی اعظم گڑھ کے زیر اہتمام فاطمہ گرلس کالج داؤد پور میں دو روزہ قومی سمینار کا افتتاح

بحیثیت محقق شبلی کی حیثیت اتنی روشن اور بلند ہے کہ اسے علمی دنیا فراموش نہیں کرسکتی۔ ان خیالا ت کا اظہار پروفیسر سراج اجملی نے دی مسلم ویلفیئر  اینڈ ایجوکیشنل سوسائٹی اعظم گڑھ کے زیر اہتمام فاطمہ گرلس کالج داؤد پور میں  منعقدہ دو روزہ قومی سمینار کے افتتاحی جلاس میں کلیدی خطبہ کے دوران کیا۔ یہ سمینار اترپردیش اردو اکیڈیمی کے مالی تعاون سے منعقد ہوا۔

 پہلے دن  سمینار کی صدارت پروفیسر احمد محفوظ نے کی جب کہ حکیم وسیم احمد اعظمی، پروفیسر ندیم احمد بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ پروفیسر علا ء الدین خاں  مہمان اعزازی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ مہمانوں کا استقبال عارف نیاز داؤدی نے کیا جب کہ نظامت ڈاکٹر عمیر منظر نے کی۔ ڈاکٹر شاہ نواز فیاض نے قرآن پاک کی تلاوت  سے پروگرام کا آغاز کیا۔ کالج کی طالبات نے مہمانوں کا منظوم استقبال کیا۔

کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر اجملی نے مزید کہا کہ  اردو میں گرچہ ابھی تک تذکرۃالمحققین آج تک مرتب نہ ہوسکی۔ امید کی جاتی ہے کہ اس سمینار کے توسط سے اس موضوع کا بنیادی خاکہ تیار کیا جاسکے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ  اس ریاست کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کے تقریباً ہر حصے میں ایسے افراد پیدا ہوئے  جو عالم،دانشور، محقق ناقداور تخلیق حیثیت سے عالمی شہرت کے حامل ہوئے ہوں۔ آج ہمار اسروکار صرف اس ریاست کے محققین کے ذکر اور انکی خدمات کے اعتراف سے ہے۔ کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر سراج اجملی نے کہا کہ ہم اس وقت جس علاقے میں اس جلسے میں شریک ہیں وہ ریاست کے مشرقی حصے کا نہایت مردم خیز خطہ اعظم گڑھ ہے۔ یہاں مذکورہ بالا تمام میدانوں کے شہ سوارکثیر تعداد میں پیدا ہوئے ہیں اور   آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔    سراج اجملی نے اس موقع پر نذیر احمد، تنویر احمد علوی، رشید حسن خاں، شمس الرحمن فاروقی، پروفیسر ظفر احمد صدیقی، پروفیسر محمود الٰہی، ڈاکٹر شمس بدایونی، ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی وغیرہ کی نمایاں  تحقیقی خدمات کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ اردو کی تحقیقی دنیا ان کے کارناموں  سے ہی روشن ہے۔

مہمان خصوصی اور معروف طبی محقق اور مرکزی کونسل برائے تحقیقات طب یونانی  حکیم وسیم احمداعظمی نے کہا کہ لفظ ’تحقیق‘ کثیر الابعاد حیثیت رکھتاہے۔انھوں نے کہا کہ جن لوگوں نے اردو تحقیق کی روایت کو استحکام بخشا ان میں شبلی نام سب سے اْوپر ہے۔شبلی نے تحقیق کے حدود کار میں زبان و ادب کے ساتھ بہت سے دیگر مروج علوم و فنون کو بھی شامل کیا۔

مولانا امتیاز علی عرشی متنی تنقید کا بڑا حوالہ ہیں، لیکن وہ مولانا عبد السلام ندوی کی غالب تحقیق کو پی جاتے ہیں۔البتہ قاضی عبد الودود ایسے محقق ہیں، جن کے یہاں تحقیق کی صالح روایت ملتی ہے اور وہ دیانت داری کے تمام کھانچوں کو بھرتے نظر آتے ہیں۔

 پروفیسر ندیم احمد نے کہا کہ اس ریاست نے تحقیق کے کاموں کو فروغ دیا۔ پروگرام کے دوران ہی انور اعظمی ایک بازیافت اور منظراعظمی حیات و خدمات کی رسم اجرا بھی انجام دی گئی۔پروفیسر علا ئالدین نے اپنے خطاب میں کہا کہ سرسید کی تحقیقی خدمات کی بعض خدمات کا ذکر کیا۔ انھوں  نے اس موقع پر دارالمصنفین کی خدمات کا احاطہ کیا۔ صدارتی خطبہ پیش کرتے پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ بغیر تحقیق کے تنقید کا کاروبار نہیں  چل سکتا۔ تنقیدی رائے کا قیام تحقیق سے ہی ہوتا ہے۔  

 اس موقع پر کالج کی طالبہ حیا اور ان کی ساتھیوں  نے ترانہ پیش کیا۔ اس موقعے پر ماسٹر ضمیر احمد، ڈاکٹر فیاض احمد، ڈاکٹر محمد ارشد، نثار احمد، شاداب احمد، حاجی رفیق احمد، محمد طالب، محمد عادل، شہزاد احمد وغیرہ اور کثیر تعداد میں  کالج کے طالبات، اساتذہ اور جملہ  اسٹاف نے شرکت کی۔

Recommended