Urdu News

طالب رامپوری: سراپہ محبت ہے شخصیت اور شاعری

استاد شاعر طالب رام پوری اور ناصر عزیز ایڈوکیٹ

ناصر عزیز (ایڈوکیٹ)

آٹھ دس برس قبل میرے دیرینہ دوست معروف صحافی و قلمکار انیسؔ امروہی صاحب نے فون کر کے کہا کہ طالبؔ رامپوری صاحب کے دو مجموعوں کے بیک وقت اجرا کے موقع پر میں انڈیا اسلامک سینٹر پہونچوں۔ میں طالب رامپوری صاحب سے باضابطہ طور پر واقف نہیں تھا۔ ان کا نام سنا تھا اور ان کی کتاب کے ٹائٹل بھی دیکھ چکا تھا۔ پہلی بار انڈیا اسلامک سینٹر میں ان سے ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر ایک مشاعرہ کا انعقاد بھی کیا گیا تھا۔ دہلی کے تمام معروف شعرا اس میں موجود تھے اور غالباً میرے بزرگ دوست محترمی علامہ ابرار کرتپوری صاحب صدارت فرما رہے تھے۔ میرا نام شعرا کی فہرست میں شامل نہیں تھا لیکن غالباً انیس بھائی نے طالب صاحب سے کہہ کر مجھے بھی ”دعوت سخن“ دلوا دی اور میں نے بھی وہاں اپنا کلام سنایا۔ پروگرام کے اختتام پر میں نے طالب صاحب سے ملاقات کی اور انھیں مبارکباد دی۔ یہ ایک رسمی سی ملاقات رہی لیکن پروگرام کے درمیان جتنی سرگرمیاں میں نے طالب بھائی کی دیکھیں اور جتنا انھیں سنا، ایک عمدہ تاثر میرے ذہن میں گھر کر گیا۔ لیکن بہت عرصے تک پھر ملاقات نہیں ہوئی۔ ان کے کلام کے مجموعات ملے اور میں نے ورق گردانی کی۔ بحیثیت شاعر مجھے وہ بہت اچھے لگے۔ ان کی شاعری کو پڑھ کر یہ اندازہ بخوبی ہو گیا کہ یہ محبت اور انسانیت کا شاعر ہے، اس شاعر کے یہاں ایک تڑپتا دھڑکتا محبت سے سرشار دل ہے اور اس کے اشعار میں انسانی ہمدردی، اخوت، رشتوں کی پاسداری، اخلاقی وضعداری جیسے تمام جذبات و عناصر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔

کچھ برس قبل میں نے ایک ادبی تنظیم”ادب جزیرہ“ کی بنیاد ڈالی۔ اس کا مقصد ادبی سرگرمیاں برپا کرنا تھا، ادب کی خدمت کرنا تھا، میں نے ایک شعری نشست کا پروگرام بنایا۔ شاعر کے بطور طالب صاحب کا نام میرے ذہن میں پہلے سے ہی کلبلا رہا تھا۔ میں نے اپنے دوست ایڈوکیٹ رئیس فاروقی صاحب کے توسل سے طالب رامپوری صاحب کو شرکت کی دعوت دی۔ وہ تشریف لائے اور مشاعرہ لوٹ لیا اور مجھے بھی۔ یہ نشست ایک ایسی رفاقت اور دوستی کا سرچشمہ بنی جو بے لوث اور پرخلوص ہے اور اس کا سلسلہ رواں دواں ہے۔

طالب رامپوری صاحب بھی محترمہ اناؔ دہلوی اور چند احباب کی معاونت سے ایک ادبی تنظیم چلا رہے ہیں اور اب معاملہ یوں ہے کہ جب وہ کوئی شعری نشست منعقد کرتے ہیں تو مجھے بلاتے ہیں اور میری کوئی نشست ان کی شرکت کے بغیر انعقاد پذیر نہیں ہوتی۔

ان ملاقاتوں کے درمیان ان کی شاعری اور فن کے نامعلوم دریچے مجھ پر وا ہوتے چلے گئے لیکن ساتھ ہی بے تکلفی اور خلوص کا جو رشتہ استوار ہوا اس نے ان کی شخصیت کے وہ پہلو بھی مجھ پر روشن کر دیئے جو کم از کم میری نظر سے پوشیدہ تھے۔ میں نے یہ جانا کہ طالب رامپوری بطور فرد محبت، ہمدردی اور خلوص کا ایک سمندر اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی جذباتی باتوں میں اچانک آنسوؤں کا آنکھوں سے جاری ہونا، آواز میں رقت پیدا ہونا اور ذرا سی خوشی پر محبت سے ہاتھ کو دبوچ لینا، اس بات کی غمازی ہے کہ یہ شخص سراپا خلوص و محبت ہے، انسانیت کا پیکر ہے اور اعلیٰ اخلاقی و انسانی اقدار کا محافظ ہے۔ طالب صاحب کے ایک پروگرام میں ان کے پیر بھائی مرحوم و مغفور س ش عالم صاحب جب طالب رامپوری صاحب کا ذکر اپنی زبان مبارک پر لائے تو ان پر رقت طاری ہو گئی اور چشم زدن میں دونوں بغل گیر ہوئے اور خلوص و محبت، رشتے کی پاسداری اور جذب انسانی کا ایک قمقمہ روشن ہوا کہ محفل چمک اٹھی۔ دیکھنے والوں کی آنکھیں نم تھیں۔

طالب رامپوری صاحب میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ میرا یقین ہے کہ اچھی اور ارفع شاعری کے لئے شاعر کا بحر علوم میں غوطہ لگانا شرط ہے۔ زبان و بیان کی باریکیوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ طالب رامپوری صاحب بہت پڑھے لکھے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے جس میں وہ متنوع انسانی جذبات کی تصویر کشی بڑی خوبی سے کرتے ہیں۔ ان کی شاعری کا مرکزی خیال محبت و انسانیت ہے۔ ٹوٹے بکھرے ہوئے انسان کا درد ہے اور وہ غم دوراں کی چارہ گری کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔

میں نے اس مضمون میں ان کے کلام کے نمونے پیش کرنے سے گریز کیا ہے کہ وہ مضمون کی طوالت کا باعث بنیں گے اور تاخیر کا بھی۔ یہاں میں نے ان کی شاعری کے حوالے سے ضمنی بات کی ہے لیکن ان کی شخصیت کے جس پہلو سے میں سب سے زیادہ متاثر ہوں، ا س کا ذکر میں نے خوب کیا ہے کیونکہ یہی چیز انھیں اپنے معاصر شعرا میں ممتاز و ممیز کرتی ہے۔ آج کے دور میں جب شاعروں نے اپنے گروپ بنائے ہوئے ہیں اور ان گروپوں میں شاعری اور مشاعروں کی سیاست خوب کارفرما ہے، ایسے میں یہ شخص دل میں محبت اور خلوص کا جذبہئ بے بدل لئے صرف انسانوں سے محبت اور رشتوں کی استواری میں مصروف ہے، کسی گروپ، کسی سیاست سے اس کو کوئی غرض نہیں۔ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہونچے کو اپنی زندگی اور عمل کے ذریعے جی رہا ہے۔ سماج کو ایک توانائی اور ایک مثبت سمت عطا کر رہا ہے۔

میں ایک ایسے پیارے انسان اور ایک ایسے مخلص دوست کی رفاقت پر بجا طور پر نازاں و فرحاں ہوں اور ان کی صحت و سلامتی کے لئے دعا کرتا ہوں۔

اخیر میں، ایک واقعہ نقل کر کے اپنی بات ختم کرتا ہوں اور وہ یہ کہ پہلی ہی نشست میں جہاں مجھے طالب رامپوری صاحب نے بطور شاعر مدعو کیا تھا، جب مجھے دعوت سخن دی گئی تو کچھ تحمل کے بعد طالب بھائی نے اس بات پر برملا خفگی کا اظہار کیا کہ میں دو تین غزلیں سنانے کے بعد ایک نظم سنانے کی اجازت طلب کر رہا تھا جس پر انتہائی شریف و باوقار ناظم جناب معین شاداب صاحب نے تو ازراہ مروت کچھ نہ کہا لیکن طالب بھائی کی اصول پسند طبیعت غالب آ گئی اور انھوں نے مجھے ٹوک دیا۔ ظاہر ہے میں اس کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھا اور مجھے یہ بات بری لگی اور میں نے مزید پڑھنے سے انکار کر دیا لیکن احباب کے حکم پر (جو یقینا میری دلجوئی کے لئے مجھے پڑھنے پر آمادہ کر رہے تھے) میں نے وہ نظم سنا دی۔ بعدہٗ مجھے اس بات نے بہت بے چین کیا کہ طالب بھائی بار بار مجھ سے مل کر یہ کہتے رہے کہ آپ کو کہیں برا تو نہیں لگا لیکن تب تک واقعی میری خفگی دور ہو چکی تھی کیونکہ اپنی غلطی کا بھی احساس ہو گیا تھا اور اس طرح طالب بھائی کا ایک اور وصف گراں مایہ مجھ پر روشن ہوا تھا۔ اور وہ یہ کہ وہ انتہائی صاف گو، بیباک اور حق پرست انسان بھی ہیں اور وہ بے لاگ اپنی حق بات دوسروں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ طالب بھائی کی شخصیت جملہ اوصاف کی حامل ہے اور ایک بار جو طالب بھائی سے مل لیتا ہے اسے ان کی طلب ہو جاتی ہے اور پھر وہ بھی ان کا گرویدہ ہوجاتا ہے جیسے کہ میں!!

ناصر عزیز (ایڈوکیٹ)

ممتاز شاعر و دانشور ناصر عزیز نے استاد شاعر طالب رام پوری کی شخصیت اور شاعری پر والہانہ انداز میں لکھا ہے۔

ناصر عزیزایڈوکیٹ نے استاد شاعر طالب رام پوری کی شخصیت اور شاعری کا بھرپور جائزہ لیا ہے۔ یہ تاثراتی تحریر محبت کرنے والوں کے لئے محبت کا تحفہ ہے۔

استاد شاعر طالب رام پوری اور ناصر عزیز ایڈوکیٹ

طالب رام پوری، ناصر عزیز، رام پور، اردو شاعری، دبستان رام پور، امروہہ، انیس امروہوی، معین شاداب 

Recommended