اردو اکادمی، دہلی کے زیر اہتمام یومِ اساتذہ کے موقع پرمشاعرے کا انعقاد
اردو اکادمی، دہلی کے زیر اہتمام ”یومِ اساتذہ“کے موقع پرقمررئیس سلور جبلی آڈیٹوریم، اردو اکادمی،سی۔پی۔او۔بلڈنگ، کشمیری گیٹ، دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ شعرا کے مشاعرے کا انعقاد عمل میں آیا۔ مشاعرے کی صدارت پروفیسر خالد محمود، سابق صدر شعبہئ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر رحمان مصورنے انجام دیے جب کہ افتتاحی پروگرام کی نظامت ریشماں فاروقی نے کی۔مشاعرے کا باضابطہ آغاز شمع روشن کرکے کیا گیا۔
مشاعرے سے قبل خیر مقدمی کلمات پیش کرتے ہوئے اردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین حاجی تاج محمد نے تمام مدعو شعرائے کرام کا استقبال کیا اور ان کا شکریہ ادا کیاکہ وہ ہماری درخواست میں مشاعرے میں تشریف لائے۔حکومت دہلی اردو کی ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہے، ہمارے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال اور نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیابھی اردو کے فروغ کے لیے ہرممکن کوشش کرتے ہیں اور ہمیں ان کا تعاون ہمیشہ ملتا رہتا ہے،جس کی وجہ سے ہمیں ایسے پروگرام کے انعقاد میں آسانی ہوتی ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر خالد محمود نے اپنی صدارتی گفتگو میں کہاکہ آج کا دن ہم ٹیچرس کے لیے عید کا دن ہوتا ہے۔اس مشاعرے کی کافی اہمیت ہے کیوں کہ اس میں تعلیم یافتہ شعرائے کرام کی شرکت ہوتی ہے جو درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔اردو سے ہماراصرف پیشہ ورانہ رشتہ نہیں ہے بلکہ قلبی رشتہ ہے۔
عشق وعاشقی کا رشتہ ہے۔ مجھ سے کوئی کہے کہ آپ نے کس سے عشق کیا ہے تو ہم پہلی فرصت میں یہی کہیں گے کہ اردو سے کیا ہے۔اردو نے ہمیں جو عزت وشہرت دی وہ کوئی اور نہیں دے سکتا۔درس و تدریس کی خدمات پیغمبروں سے وابستہ ہے،ہمیں اپنے پیشے کا حق ادا کرنا چاہئے ورنہ نہ ہمیں اطمینان ہوگا نہ ہی بچوں کو۔ہمیں اپنے اوپر نہیں اس پیشے پر فخر ہوتا ہے۔ طلبا سے کوئی خونی رشتہ نہیں ہوتا لیکن خون کے رشتے والے بھی ہماری اتنی بات نہیں سن سکتے۔میں اس موقع پر سبھی کو مبارک باد دیتا ہوں۔
مشاعرے میں سامعین کی بڑی تعداد کے علاوہ ممبران گورننگ کونسل میں سے اسرار قریشی، منے خان، نفیس منصوری، جاوید رحمانی، شبانہ خان، رخسانہ خان اور رفعت زیدی وغیرہ بھی موجود تھے۔
قارئین کے ذوق وشوق کی تسکین کے لیے شعرائے کرام کے منتخب اشعار پیش ہیں:
کہانی یہ تھی کہ سب ساتھ مل کے رہتے ہیں
پھر اس کے بعد اچانک سماں بدلتا ہے
(پروفیسر خالدمحمود)
دیر مت کر کتابِ دل پڑھ کر
اپنی تعلیم کو مکمل کر
(ڈاکٹر جی۔آر۔کنول)
کیا کرتے کہیں اور ٹھکانہ ہی نہیں تھا
ورنہ ہمیں اس کوچے میں آنا ہی نہیں تھا
(پروفیسر احمد محفوظ)
کیسے پریم کی مالاگوتھوں کچھ بھی نہیں کانٹوں کے سوا
جھلس گئے سب پھول یہ کیسی گلشن گلشن آگ لگی
(ڈاکٹر شبانہ نذیر)
ایک ہی انجام کو پہنچے سبھی موقع پرست
کچھ کو بدنامی نے مارا کچھ کو شہرت کھاگئی
(ڈاکٹر نگار عظیم)
ہوش لاپروا درختوں کے ٹھکانے لگ گئے
وقت سے پہلے ہی پودے گل کھلانے لگ گئے
(ڈاکٹر فریاد آزر)
میں باہر سے اچک کر دیکھتا ہوں
مرے اندر تماشہ ہورہا ہے
(ڈاکٹر رحمان مصور)
اداس ہیں جو حسیں چہرے
میں ان کو ہنسنا سکھا رہا ہوں
(محمد انس فیضی)
سچ یہ ہے اختر بھٹکنے ہی نہیں دیتا کبھی
رہبری کرتا ہے ہر نقشِ پا استاد کا
(محمد اختر علی)
ہمارے کھیل کی گڑیا تمہی ہو
تمھارے کھیل کا گڈا نیا ہے
(سلمان سعید)
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…