Urdu News

ادب کا مجسم شاہ کار پدم شری انورجلال پوری

پدم شری انورجلال پوری مرحوم

شیزا جلال پوری

جلال پور،امبیڈکرنگر،اترپردیش

بہت برباد کر ڈالا ہے ہم دونوں کو نفرت نے

اٹھو لفظِ محبّت لکھ کے سجدہ کر لیا جائے

پدم شری انورجلال پوری ایک کامیاب ناظم اور اعلیٰ شاعر نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ممالک میں بھی نظامت کے فن کو بلندی پر پہنچایا-ان کی شاعری میں قومی یکجہتی اورانسانی دوستی کے عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں، انکو اردو ، ہندی ، انگریزی ،عربی اور فارسی پر دسترس حاصل تھی۔

بقول ڈاکٹر بشیر بدر

’’جدید غزل کی شناخت میں اس کی نئی زبان روز مرہ کی لفظیات ہیں- نئی غزل میں نئے لفظوں کی داخلی شخصیت کو غزل کی جگہ دینے کا کرشمہ چند ہی لوگوں کے حصّے میں آیا ہے- ان کامیاب شاعروں میں انور جلالپوری نے نئے اسلوب کی خوبصورت غزلیں کہی ہیں‘‘۔

شعر   و  سخن  کے  ساحر  انور  جلالپوری

ہر  فکر و فن  میں    ماہر   انور  جلالپوری

اب ناظموں میں جن کا کوئی نہیں ہے ثانی

تھے  وہ   نقیب   و  شاعر   انور  جلالپوری

آج 6جولائی  2022کو پدم شری  انور جلالپوری صاحب کی 75ویں سالگرہ  پر خاص

 اپنی پرکشش آواز اور منفرد لب و لہجے سے عالمِ انسانیت پر حکومت کرنے والے اس عظیم شخص کو تہ دل سے خراجِ عقیدت،انور جلالپوری ایک عظیم ناظم، شاعر، ادیب، خطیب اور بھی کئی خدا داد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ان کی اعلیٰ نظامت کسی بھی مشاعرے کی کامیابی کی ضامن ہوا کرتی تھی۔وہ ایک زبردست مقرر تھے ، اور ناظم مشاعرہ بھی۔ان کی تقریروں میں کمال کی کشش ہوتی تھی، سننے والا خود بخود کھنچا چلا آتا تھا، انکی جگل گوئی زبردست تھی، کوئی جواب ہی نہیں تھا،  یہ شعر دیکھیے:

سوچ رہا ہوں گھر آنگن میں ایک لگائوں آم  کا پیڑ

کھٹا کھٹا میٹھا میٹھا یعنی تیرے نام کا پیڑ

یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ انور صاحب جدیدیت کے شاعر تھے۔  ان کی زبان اتنی سادہ اور سستہ تھی کہ ایک  عام انسان کو بھی آسانی سے سمجھ میں آ جاتی تھی۔  کچھ اشعاریہاں درج ہیں:

نشیلی گولیوں نے لاج رکھ لی نوجوانوں کی

کہ میخانے میں جا کر اب کوئی رسوا نہیں ہوتا

در و دیوار پے سبزے کی حکومت ہے یہاں

ہوگا غالب کا کبھی اب تو یہ گھر میرا ہے

دل کہیں، ذہن کہیں، جسم کہیں، روح کہیں

آدمی ٹوٹ کے بکھرا کبھی ایسا تو نہ تھا

سڑکوں پہ آ کے وہ بھی مقاصد میں بٹ گئے

کمروں میں جن کے بیچ بڑا مشورہ رہا

شہروں کے شورو غل نے یہ سمجھا دیا ہمیں

کتنا سکون  گاؤں کے کچے گھروں میں تھا

ایک سچے شاعر کی زندگی نہ جانے کتنے غم و آلام سے بھری ہوتی ہے۔ ہزاروں ملاقاتیں ،ہزاروں اسفار،  ہزاروں شامیں،  ہزاروں راتیں، ہر رات اور ہر دن کی ایک نئی کہانی ، ہر کہانی الف لیلیٰ کی داستان سے زیادہ دلچسپ، کیسی کیسی حسین بزم آرائیاں ،یہاں تک کہ وہ اپنی زندگی کا ہر صفحہ کھول کر آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ وہی ایک عظیم شاعر ہوتا ہے ۔ جسے ہماری آنے والی نسلیں بھی کبھی فراموش نہیں کر سکتیں۔

انور صاحب نے حمدیہ،  نعتیہ، غزلیہ،  نظمیہ، گیت اور نغمے ہر صنف پر طبع آزمائی کی ہے۔

کچھ اشعار ملاحظہ کریں:

حمدیہ شاعری

تو مصوّر ہے مرا اور تیری تصویر ہوں میں

مجھ کو سر سبز بنا تیری ہی جاگیر ہوں میں

یا رب دل مومن کی آہوں میں اثر دے دے

بازوئے مسلماں کو جبریلؑ کے پر دے دے

نہ یہ دن نہ یہ رات باقی رہے گی

بس اللّه کی ذات باقی رہے گی

نعتیہ شاعری

سرکارؐ نے دکھائی جو صورت زمین پر

ہونے لگی خدا کی عبادت زمین پر

آپؐ سرکار ہیں تخلیق دوعالم کا سبب

آپؐ کو دیکھ کے سیکھا ہے فرشتوں نے ادب

غزلیہ شاعری

پہلے لوگوں میں محبّت تھی ریا کاری نہ تھی

ہاتھ اور دل دونوں ملتے تھے اداکاری نہ تھی

اس نا امید شخص نے یوں کی ہے خودکشی

ناخن کی تیز دھار کو خنجر بنا لیا

قتل دو اک رہ زنی اس کے علاوہ شہر میں

خیریت ہی خیریت ہے حادثہ کوئی نہیں

قومی یکجہتی

ہم کاشی کعبہ کے راہی ہم کیا جانے جھگڑا بابا

اپنے دل میں سب کی الفت اپنا سب سے رشتہ بابا

ایک خدا کے سب بندے ہیں اک آدم کی سب اولاد

تیرا میرا خون کا رشتہ میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

نظمیہ شاعری

اس اجڑے ہوئے ویرانے میں

اس ترسے ہوئے میخانے میں

ہم جب بھی کبھی انجانے میں

گیتوں سے بھری کوئی دنیا

آباد کریں تو آ جانا

دوستو! آؤ اسی وقت یہ وعدہ کر لیں

ہم کبھی جہد مسلسل سے نہ منھ موڑیں گے

ہم سدا عزم مصمم کا سہارا لی کر

جہل کی ہر کسی زنجیر کو ہم توڑیں گے

سیاسی نظمیں

آؤ قندیل سے قندیل جلانا سیکھیں

آؤ احساس کی جنّت کو سجانا سیکھیں

آؤ بچھڑے ہوئے دو دل کو ملانا سیکھیں

آؤ جو آگ لگی ہے وہ بجھانا سیکھیں

آؤ تاریکی دنیا کو سویرا دے دیں

آؤ شاہین محبّت کو بسیرا دے دیں

چاروں طرف جلتے مکاں

ہر سمت پھیلا ہے دھواں

مایوس ہر پیر و جواں

مغموم سب کی داستاں

پرور دگارِ دو جہاں

مجھ کوبتا جاؤں کہاں

گیت و نغمے

نہ تو پاس ہو نہ تو دور ہو

تم نشہ تو نہیں ہو سرور ہو

چاندی سا بدن تیرا پھولوں سے وچن تیرے

کر دیتے ہیں کتنوں کو گھائل یہ نین تیرے

آج کی رات ٹھہر جاؤ مزہ آئےگا

میری باہوں میں سمٹ جاؤ مزہ آئےگا

تم پرستان کی اک پری ہی سہی

اور آنکھوں میں جادو گری ہی سہی

پھر بھی جس وقت چاہونگا میں جانِ من

بانسری بن کے ہونٹوں سے لگ جاؤگی،

جس لڑکی سے پیار ہے مجھ کو وہ لڑکی البیلی ہی

تتلی پھولوں اور کلیوں کے ساتھ وہ برسوں کھیلا ہے

 اپنے ادبی سفر میںچالیسبرسوں کے دوران ریاستوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے باہر امریکہ، کناڈا ،لندن ، پاکستان ، سعودی ارب ،دبئی ، شارجہ اور کویت جیسے درجن بھر سے زا ئد ملکوں میں اپنی دلکش آواز اور دلنشیں مکالموں سے عوام کے دلوں پر حکومت کی،مشہور سیریل ’’ اکبر دی گریٹ‘‘ کے مکالمے اور ڈائلاگ لکھے ۔’’ ہندو دھرم کی مقدّس کتاب ’’ گیتا ‘‘ کا اردو میں منظوم ترجمہ کیا۔خلفائے راشدین سیرتِ صحابہ کا اردو میں منظوم ترجمہ کیا جو ’’راہرو سے رہنما تک‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔قرآن کے تیسویں پارے ’’عمّہ‘‘ کا اردو میں منظوم ترجمہ کیا جو ’’ توشئہ آخرت‘‘ کے نام سے شائع ہوا ،ان کی خدا داد صلاحیتوں پر انھیں تقریباً ایک درجن سے زائد انعامات سے نوازا گیا، انور جلالپوری نے جلالپور میں مرزا غالب انٹر کالج کی بنیاد ڈالی، جو آج ترقّی کی راہ پر گامزن ہے۔

 2010میں مایاوتی حکومت نے ان کے علمی اور ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اردو ، عربی ، فارسی یونیورسٹی اتر پردیش کی انتظامیہ کمیٹی کا ممبر بنایا،اور اس کےفوراً بعد ہی ان کو مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا چیئر مین بنا کر وزیر مملکت کی سہولت سے نوازا۔1992میں ملائم سنگھ حکومت نے انھیں ریاستی حج کمیٹی کا ممبر بنایا۔1978میں کانگریس کی نرائن دت تیواری حکومت نے اتر پردیش اردو اکادمی کا ممبر بنایا ۔ مشہور اداکارہ مادھوری دکشت کی مشہور فلم ،، ڈیڑھ عشقیہ ،، میں اسی کردار میں نظر  آ ئے جس کردار کے لیے ساری دنیا میں جانے جاتے ہیں۔

آج تمام اہل جلالپور کے ساتھ ساتھ ساری دنیا ان پر رشک کر رہی ہے ۔ شخص مرتا ہے شخصیت نہیں،جب تک اردو ادب زندہ ہے ان کا نام سنہری حرفوں میں لکھا جاتا رہے گا ، اور وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

گلوں کے بیچ میں مانند خار میں بھی تھا

فقیر  ہی  تھا  مگر  شاندار  میں  بھی  تھا‘‘

تہ دل سے خراج عقیدت 

Recommended