ریسرچ اسکالرزسابقہ تحریروں پر تکیہ نہ کریں اپنے افکار و نظریات پیش کریں:احمد محفوظ
اردو اکادمی، دہلی کی جانب سے دہلی کے بزرگ اور جواں عمر قلمکاروں کامقبول ترین پانچ روزہ ادبی اجتماع ”نئے پرانے چراغ“ کا سلسلہ جاری ہے۔آج بروز اتوار مورخہ 24جولائی کو ”تحقیقی وتنقیدی“کے پہلے اجلاس میں دہلی کی تینوں یونیورسٹیوں کے ریسرچ اسکالرز نے منتخب موضوعات پر تحقیقی و تنقیدی مقالات پیش کیے۔ ان موضوعات میں ”دکن کی قدیم اردو شاعری اور اہم شعراء“، ”غزل کے بدلتے رجحانات“، ”اردو تحقیق اور اہم محققین“، ”قدیم اردو نثر اور اہم تصانیف“، ”اردو صحافت:ماضی، حال اور مستقبل کے امکانات“ شامل ہیں۔ اس اجلاس کی مجلسِ صدارت میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صدر شعبہئ اردو پروفیسراحمد محفوظ، ڈاکٹر ریاض عمر اور مفتی عطاء الرحمن قاسمی شامل تھے۔ جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر شہنواز فیاض نے انجام دیے۔اس اجلاس میں دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر محمد فیصل نے ”فسانہئ عجائب اور رشید حسن خاں کی تحقیقی موشگافیاں“، دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر عبدالمجیدنے ”رشید حسن خاں کے تحقیقی و تدوینی اصول و ضوابط“،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر صائمہ ثمرین نے ”ساجدہ زیدی کی غزل گوئی قدیم و جدید کا التزام“،دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرذیشان نے ”دکن کا مشہورشاعرسراج اورنگ آبادی غزلیہ شاعری کے تناظر میں‘‘، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ریسرچ اسکالرفیضان الحق نے ”ش۔ اختر کی تصنیف تحقیق کے طریقہ کار: ایک جائزہ“،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالرعظمیٰ نے ”قدیم اردو نثر اور اہم تصانیف“،دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر نور الاسلام نے ”نکڑ ناٹک: فن اور اہمیت“،جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسرچ اسکالرسیمیں فلک نے ”مسعود حسین خان کی تحقیق“، دہلی یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالررفعت اختر نے ”مشرقی تحقیق اور ظفر احمد صدیقی کا طریقہئ کار“،کے عنوانات پر اپنے مقالات پیش کیے۔
مقالات کے بعداظہارِ خیال کرتے ہوئے مفتی عطاء الرحمن قاسمی نے کہاکہ اردو اکادمی کا سب سے کامیاب ترین پروگرام نئے پرانے چراغ ہوتا ہے اور پیش کیے گئے تمام مقالات اچھے تھے۔ جب میں تحقیقی کام کرتا تھا تو نئے پرانے چراغ میں پیش کیے گیے مقالات سے استفادہ کیا کرتا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ تحقیق میں سب سے اہم کام استقلال مزاجی ہے۔ ہماری یونیورسٹی اور کالج کے طلباء غنیمت ہیں کہ وہ لکھتے پڑھتے ہیں لیکن مدارس میں خاموشی ہے۔ یہاں نئی نسل کی تربیت ہو رہی ہے اور اگر آج یہ تیار ہوگئے تو یہی نسل ہمارا سرمایہ ہے۔
پروفیسراحمد محفوظ نے اپنی صدارتی گفتگو میں کہاکہ افادیت کے اعتبار سے اس اجتماع کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ یہ پروگرام جس کا مرکز طلباء کی تربیت ہے، اس لحاظ سے یہ پروگرام کافی اہم ہے۔ میں نے تمام مقالات بغور سنے ہیں، تمام مقالات کے موضوعات بھی منفرد تھے۔ یہ سبھی مبارک باد کے مستحق ہیں۔بیشتر مقالات میں ایک بات یکساں تھی کہ جو باتیں پہلے کہی جا چکی ہیں انہی پر تکیہ کیا گیا ہے، جب کہ اپنے افکار و نظریات بھی رکھے جاسکتے ہیں اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب آپ غور وفکر کریں گے۔غلطی ہونے کے اندیشے کے سبب کام نہ کیا جائے یہ بھی تو مناسب نہیں۔ تمام مقالات محنت سے لکھے گئے ہیں بس اپنے خیالات بھی پیش کرتے تو بہتر ہوتا اورہمیں چاہئے کہ علمی نثر میں عبارت آرائی سے بچیں کیوں کہ وہ تاویل کی جانب لے جاتی ہے۔ پروفیسر احمد محفوظ نے فرداً فرداً سبھی مقالات پر مختصراً گفتگو کرتے ہوئے ریسرچ اسکالرز کی تحقیق اور لسانیات کے حوالے سے اصلاح بھی فرمائی۔
ڈاکٹر ریاض عمر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ تمام مقالات کافی محنت سے لکھے گئے اور یہ قابل تعریف ہیں۔مجھے یقین نہیں امید ہے کہ آپ پی ایچ ڈی کے بعد اچھے مقالہ نگاروں کی صف میں شامل ہوں گے۔
ظہرانے کے بعد ”تخلیقی اجلاس“ کا انعقاد ہوا جس کی صدارت پروفیسرجی آر سید اوراسد رضا نے کی جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر ثاقب عمران نے انجام دیے۔اس سیشن میں افسانہ/انشائیہ/ خاکہ وغیرہ پیش کیے گئے۔اس موقع پر عذرا نقوی نے ”آسماں میں کھڑکی“، رخشندہ روحی نے ”کتنے جھوٹے تھے ہم“، چشمہ فاروقی نے”ہمراہی اور منزل“، غزالہ قمر اعجازنے ”ٹیشو پیپر“، طاہرہ منظور نے ”چھوت کون“، ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی نے”بلڈوزر“،محمد انصر نے”کش مکش حیات“، شہباز عالم نے ”بدلہ“ کے عنوانات سے افسانے افسانے پیش کیے جب کہ محمدتوصیف خاں نے اپنا انشائیہ ”نامعلوم مسافر“، پیش کیا۔
پروفیسرجی آر سید نے صدارتی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ تمام افسانے بہت اچھے تھے، ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ افسانہ اور کہانی ایک ہے جب کہ ایسانہیں۔ دراصل افسانے میں کہانی ہوتی ہے، بنیادی طور پر افسانہ فن ہے اور افسانہ ایک ایسا فن ہے جس کی پیش کش بہترین ہونی چاہئے۔ انہوں نے مزید کہاکہ کہانی اچھی ہو یا بری ہو اگر پیش کش بہترین ہوتو کہانی ہمارے دلوں تک پہنچتی ہے۔ جی آر سید نے فرداً فرداً سبھی افسانوں پر گفتگو کی۔ اسد رضا نے اپنی صدارتی گفتگو میں تمام افسانوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہاکہ نئے لکھنے والوں کو چاہئے کہ وہ پیش کش پر توجہ دیں کیوں کہ افسانوں میں ڈرامائی انداز متاثر کن ہوتا ہے۔
اہم شرکاء میں اشفاق عارفی، شعیب رضا فاطمی،سہیل انجم،انس فیضی،اسرار قریشی وغیرہ شامل تھے۔ تحقیقی و تنقیدی اور تخلیقی اجلاس کے فوراً بعد ”محفل شعر وسخن“ کا آغاز ہوا۔