Urdu News

غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے منعقدہ سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز وبینار اختتام پذیر

غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے منعقدہ سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز وبینار اختتام پذیر

غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے منعقدہ سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالرز وبینار 31/ اکتوبر کو اختتام پذیر ہوا۔ اس وبینار میں ہندستان ہی نہیں بیرون ملک سے بھی ریسرچ اسکالرس نے آن لائن شرکت کی۔ 30/ اکتوبر کو تیسرے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر انور پاشانے کہا کہ آج کے اجلاس میں شریک ہو کر مجھے خوشی ہوئی کہ ہمارے نوجوان مقالہ نگاروں نے روایتی انداز سے ہٹ اہم نکات دریافت کیے ہیں۔ تحقیق کا مقصد ہی یہ ہے کہ نئی دریافت سامنے آئیں۔ تحقیق میں دریافت کا سفر جاری رہتا ہے ایک دریافت دوسری دریافت کو راہ دیتی ہے۔

 غالب انسٹی ٹیوٹ قابل مبارکباد ہے کہ وہ طلبا کو ایسے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس اجلاس میں مہر فاطمہ، ذیشان حیدر، شاداب شمیم، سید نور عالم اور اطہر حسین نے مقالات پیش کیے۔چوتھے اجلاس کی صدرات کرتے ہوئے دہلی یونیورسٹی کی صدر شعبہ اردو پروفیسر نجمہ رحمانی نے کہا کہ میں استاد یا صدرجلسہ ہونے کا یہ مطلب قطعی نہیں سمجھتی کہ میں زیادہ جانتی ہوں اور مجھ سے کم عمر لوگوں کا علم کم ہے۔ اکثر کلاس یا سمینار میں کسی طالب علم کا ایک جملہ سن کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ سوچنے کا یہ زاویہ بھی ہو سکتا ہے۔

 غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے منعقد اس سمینار میں طلبا کے پاس ایک ایسا موقع ہوتا کہ وہ اپنے ساتھیوں سے بھی کچھ حاصل کریں اور ان میں علمی رابطہ پیدا ہو۔ اس اجلاس میں الیاس کبیر، فرح ناز، فیاض حمید اور محمد الطاف مہدی نے مقالات پیش کیے۔ پانچویں اجلاس کی صدارت انجمن ترقی اردو ہند کے چیرمین ڈاکٹر اطہر فاروقی نے فرمائی اپنے صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ اکثر سمیناروں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ پس منظر پر اتنا زور صرف ہوجاتا ہے کہ جو بات کہنے کی ہے اس کے لیے وقت نہیں رہ جاتا۔ طلبا ابھی سے غور کریں کہ جو بات انھیں کہنی ہے وہ پہلے پہنچ جائے اور پس منظر پر غیر ضروری وقت صرف نہ ہو۔ آنے والا وقت نئے چیلنج لے کر آئے گا لہٰذا ہمیں ابھی سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں آئندہ وقت میں ان کے مقالے کو سرقے کے زمرے میں نہ رکھا جائے۔ رانی حفیظ، محمد خبیب، شمشیر علی اور محمد امان نے مقالات پیش کیے۔ تیسرے دن (31/ اکتوبر)چھٹے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر ابن کنول نے کہا کہ تحقیق تلاش و جستجو کا نام ہے میں اپنے اسکالر سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ وہ خود کو محنت کا عادی بنائیں۔ انٹر نیٹ پر لکھی ہوئی باتوں کو اپنے الفاظ میں پیش کرنے سے سند تو حاصل کی جا سکتی ہے لیکن اسے تحقیق نہیں کہہ سکتے۔ آج کے سیشن میں شریک ہو کر مجھے خوشی ہوئی کہ طلبا اب نئے موضوعات کی طرف متوجہ ہیں۔ اس اجلاس میں مریم معطری(ایران)، سیدنور عالم، شبیر احمد لون، جاوید احمد شاہ اور شہلا پروین نے مقالات پیش کیے۔ آٹھویں اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پرفیسر شہزاد انجم (صدر شعبہئ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے کہا کہ مجھے آج کے مقالات سن کر اس بات کی خوشی ہوئی کہ طلبا خالص ادبی کتابوں کے علاوہ بھی دیگر موضوعات سے استفادہ کر رہے ہیں۔ تن آسانی وقتی طور پر تو کام کر جاتی ہے لیکن ساری زندگی سر بلند نہیں ہونے دیتی۔ آپ خود اپنے گرد و پیش نظر دوڑائیں تو اندازہ ہوگا کہ ماضی میں جن لوگوں نے تحقیقی مقالے لکھ کر سند حاصل کی ان کے مقالے آج بھی ہمارے حافظوں میں زندہ ہیں۔ اس اجلاس میں محمد راشد سعیدی، بہارہ اکبری(ایران) علی ظفر، محمد انور محمد افسر، ابرار علی شاہ، اور محمد عمران نے مقالہ پیش کیا۔ اختتامی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے۔

 غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن نے کہا  اس سال کا انٹر نیشنل ریسرچ سکالرس ویبینار کے مقالے جب کتابی شکل میں غالب انسٹی ٹیوٹ پیش کرے گا تو مجھے یقین ہے کہ یہ ویبینار کی پروسیڈنگ آنے والے تمام نئے ریسرچ اسکالر کے لیے ایک دستاویز کی حیثیت رکھے گا۔ اور تحقیق کے نئے زاویے کھولے گا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ مجھے بے حد خوشی ہے کہ یہ سمینار اتنا کامیاب رہا مجھے یقین ہے کہ آئندہ یہ سمینار آف لائن منعقد ہوگا میں اپنی ٹیم خصوصاً مشتاق احمد صاحب، توفیق احمد صاحب، افضل زیدی، الطاف مہدی اور سلمان مہدی اور تمام اسٹاف کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے بڑا تعاون کیا۔ پروفیسر راجندر کمار(صدر شعبہ فارسی دہلی یونیورسٹی) نے کہا کہ میرے سامنے تمام طلبا کے مقالات کی فہرست ہے جسے ایک نظر میں دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب تحقیق کے لیے فرسودہ موضوعات سے گریز کا رجحان پیدا ہوا ہے۔ ایک ریسرچ اسکالر کو چاہیے کہ وہ دوسری زبانوں میں ہونے والی تحقیق پر بھی نظر رکھے۔

 میں یہ نہیں مانتا کہ دوسری زبانوں میں صرف اچھے ہی نمونے ہیں۔ خرابیاں وہاں بھی ہیں لیکن بعض ایسے رجحانات ضرور مل جائیں گے جن کی طرف آپ کی زبان میں خاطر خواہ توجہ نہیں کی گئی۔ پروفیسر توقیر احمدحان نے کہا کہ میں بہت شروع سے دیکھ رہا ہوں کہ غالب انسٹی ٹیوٹ بنیادی کام انجام دیتا ہے مقالہ لکھنا ایک فن ہے اور اس کی پیشکش دوسرا فن ہے غالب انسٹی ٹیوٹ ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے کہ طلبا وہ دونوں سطح پر اپنی تربیت کر سکتے ہیں۔ پروفیسر اخلاق آہن نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ میں نے کئی اجلاس کو سنا اور مجھے خوشی ہے کہ اکثر طلبا نے تیاری کے ساتھ وبینار میں شرکت ہے لیکن اس کے باوجود اگر کچھ کمیوں کی طرف اساتذہ نے اشارہ کیا ہے تو اس سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔  ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ قابل مبارکباد ہے کہ اس نے طلبا کو ایک ایسا موقع فراہم کیا ہے کہ جہاں ان کی تربیت ہو جاتی ہے۔ ریسرچ میں صرف نظری مباحث کو نظر میں رکھنا کافی نہیں ہے جن محققین نے تحقیق کا حق ادا کیا ہے ان کی تصانیف تربیت کا سب سے بہتر وسیلہ ہیں۔ ڈاکٹر محضر رضا نے اس پروگرام میں تمام مقالہ نگار اور مہمان خصوصی کا شکریہ ادا کیا اور رپوٹ پیش کی۔

Recommended