Urdu News

انجمن فروغِ ادب بحرین کا بارہواں عالمی مشاعرہ 2022

انجمن فروغِ ادب بحرین کا بارہواں عالمی مشاعرہ 2022

طاہرعظیم

انجمن فروغ ادب بحرین اپنے قیام (2004) سے لے کر اب تک کئی ادبی تقاریب کا انعقاد کرچکی ہے

انجمن فروغ ادب کا ابتداء ہی سے یہ طر ۂ امتیاز رہا ہے کہ اردو  ادب کو ایک مضمون یا سرگرمی کی بجائے ادبی و معاشرتی اشتراک کے نمایاں امکان کے طور پر ترقی دی جاے تاکہ اس سے منسلک مثبت رویوں کی بنیاد پر ثقافتی نمو کے عمل کو جاری رکھا جاسکے۔گزشتہ دنوں اسی تنظیم نے اپنا بارہواں عالمی مشاعرہ 2022کا انعقاد کیا۔مشاعرہ کے ساتھ ساتھ  بحرین  میں مقیم شاعر احمد عادل کے پہلے شعری مجموعہ ”عالم ِامکاں“ کی تقریبِ پزیرائی کا بھی اہتمام کیا گیا۔

مشاعرہ پاکستان سے خواجہ رضی حیدر،ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر،تہذیب حافی، ندیم راجہ، جب کہ ہندوستان سے منصور عثمانی اور زبیر علی تابش نے شرکت کی، مقامی شعرا میں سے احمد عادل،رخسارناظم آبادی،طاہر عظیم،عدنان افضال اور اسد اقبال کا انتخاب کیا گیا تھا۔تقریب کی نظامت  خرم عباسی نے کی ،تقریب کا آغاز کرتے ہوئے جناب خرم عباسی نے  مشاعرہ گاہ میں شعراء کی آمد کا اعلان کیا، تو سامعین نے پرجوش تالیوں نے تمام شعراء کا استقبال کیا۔ ناظم ِ تقریب نے چند حمدیہ و نعتیہ اشعار پیش کئے اور خطبہ استقبالیہ کے لئے انجمن فروغِ ادب بحرین کے کنوینر  طاہرعظیم دعوت دی،انہوں نے  اپنے کلمات میں  مشاعرے شریک شعراء اور سامعین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا”مشاعرہ چونکہ خواص کے ساتھ ساتھ عوامی اجتماع ہے  شعراء کی فہرست بناتے ہوئے ادبی معیار، ثقافتی وقار اور سامعین کی پسند کو مقدم رکھا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ ان شعراء کو مدعو کیا جاے جو بحرین کبھی نہیں آئے یا بہت کم آئے اور اس کے ساتھ ساتھ باصلاحیت نوجوان شعرا کو بھی موقع دیا جاے  اگر آپ ہمارے مشاعروں میں شریک شعرا کی فہرست دیکھیں تو آپ کو کئی ایسے نام نظر آئیں گے۔

کسی بھی سرگرمی کو تسلسل سے جاری رکھنا ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے ہماری خوش قسمتی ہیں کہ ہمیں جنابِ صہیب قدوائی،جنابِ عدیل ملک،جنابِ شکیل احمد،جنابِ احمد عادل جیسے مستقل مزاج ،بے لوث شخصیات بطور سرپرست میسر ہیں۔

مشاعرہ منعقد کرنا کسی فردِ واحد کا کام نہیں اس میں کئی لوگوں کی محنت شامل ہوتی ہے یہ الگ بات ہے کوئی زیادہ نمایاں ہوجاتا ہے حالانکہ باقی تمام دوستوں کی اتنی ہی محنت شامل ہوتی ہے۔اس شام کے انعقاد میں جن دوستوں بھرپور حصہ لیا ان میں محمد عرفان،کاتب زہیر،احمد نواز،عثمان خان، احمدامیر پاشا،بلال رفیق،محمدشمیر،عدنان افضال  کے نام نمایاں ہیں  میں ان سطور میں بطورِ خاص اپنے عزیز دوست بہترین شاعر کامران نفیس کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس مجلہ کا دیدہ زیب سرورق بنایا ہے۔ اور  اس مجلہ کی طباعت و اشاعت   کاتب زہیر کی محنت سے ممکن ہوئی ہے،بعد ازاں مجلہ کی رسم ِ اجرا کی گئی جن میں مہمان شعراء اور انتظامیہ کے علاوہ بحرین کی اہم شخصیات شریک ہوئے۔

احمد عادل کی کتاب ”عالمِ امکاں“ پر اپنے خیالات کے اظہار کے لئے بحرین کی معروف ادبی و کاروباری شخصیت جنابِ شکیل احمد صبرحدی کو دعوت دی گئی، انہوں نے اپنے  خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا

مصروف رہ گزر پہ چلا جارہا تھا میں

پھر کیوں لگا کہ سب سے جدا جارہا تھا میں

سب میں شامل رہ کراپنی منفردشناخت،الگ پہچان اور جداگانہ طرزکے ساتھ محوِ سفر ہونے کی اذیّت کا اندازہ احمد عادل جیسے شاعرسے زیادہ کسے ہوسکتا ہے۔  ایک ایسا دور جس میں آوازوں کی بھیڑ اور ایک جیسے لہجوں کا انبوہِ کثیر بہر سمت کسی شور کی طرح گونج رہا ہو، اُس دور میں احمد عادل کی دلنشین، دلآویز اور دلرُبا شاعری اپنی نرمی، شائستگی، لطافت اور نفاست سے پہچانی جاتی ہے۔

اپنی مٹّی اور اپنی جڑوں سے دوربحرین جیسے گہماگہمی  اور مصروفیت والے  ملک میں تجارتی اصولوں، آنکڑوں اور ہندسوں  سے وقت نکال کر شعروشاعری کے روحانی اور وجدانی راستوں کا سفراحمد عادل جس خوش اسلوبی سے کررہے ہیں  وہ انہیں کا کمال ہے۔                                                   

مصروفیت میں آج بھی گزرا تمام دن

رہنا پڑا ہجوم میں تنہا تمام دن

تعمیرِ ذات ہی میں لگی زندگی تمام

خالق بنا رہا تھا بنا جارہا تھا میں

احمد عادل کی شخصیت  اور شاعری سے میرا تعلق کم و بیش دو دہائیوں پر مشتمل ہے۔  چنانچہ بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر شاعری شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے تو اس کی واضح مثال احمد عادل کی شخصیت اور شاعری ہے۔ آپ کی شخصیت کی طرح آپ کی شاعری بھی نہایت لطیف، شائستہ اور نفیس اوصاف کی حامل ہے۔ گویا کہ خوش فکری، خوش مزاجی اور خوش لباسی کا امتزاج ہی احمد عادل کی امتیازی شناخت ہے۔                                                         

میں انجمن فروغِ ادب بحرین اور طاہر عظیم کو مبارکباد دیتا ہوں کہ بحرین کے بہت اہم شاعر احمد عادل کے مجموعہ ء کلام کے اجراء کا اہتمام اپنے عالمی مشاعرے میں کررہے ہیں۔ میری تمام تر نیک خواہشات انجمن کے ساتھ ہیں۔

 

ہندوستان سے خصوصی طور پر شریک معروف شاعر و ناظم منصور عثمانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا’’جناب احمد عادل ہمارے عہد کے ان ممتاز شعرامیں بہت نمایاں ہیں جنھوں نے غزل کے حسن اس پاگیزگی اس کی تہذیب اور تاریخ کی حفاظت میں اپنے شوق کو عبادت بنالیا ہے یہی سبب ہے کہ اب ان کی شاعری ریاضت سے کرامت کے بہت قریب پہنچ چکی ہے۔

صاحبِ کتاب جناب احمد عادل نے تمام دوستوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا”میں سمجھتا ہوں کہ میری بحرین آمد نے میری شاعری کے شوق کو پنپنے میں بہت تقویت دی۔  جب میں بحرین آیا تو یہاں کئی ادبی انجنیں سر گرم تھیں اور شاعری کا خوب دور دورہ تھا۔  شاعروں میں سید سعید قیس،  شاہد نجیب آبادی،  جمیل جعفری،  رخسار ناظم آبادی معظم سعید،  کامران نفیس  اور طاہر عظیم  جیسے معیاری شعرا شامل تھے۔  ایک چھوٹی سی جگہ میں یہ ادبی منظر نامہ  واقعی قابل تعریف اور  ستائیش  تھا۔  اسی دوران میں الثقافہ سے متعارف ہوا۔  یہ بحرین میں مقیم پا کستانیوں کی ادبی اور ثقافتی تنظیم تھی۔  اس کے بانی افضل نجیب مرحوم تھے اور ان کے رفقا ء کار میں نور پٹھان، ڈاکٹر قاہر، شہاب صدیقی، مجتبی برلاس، ڈاکتر سلیم اختر، فخرالدین خواجہ اور نوید شرف خواجہ شامل تھے۔  ان سب حضرات کی دوستی اور  صحبت بذات خود ایک ادبی تحریک میں شمار کی جا سکتی ہے۔  ان سب دوستوں کے اصرار پر میں بھی الثقافہ کا ممبر بن گیا۔ الثقافہ ادبی اور ثقافتی سرگر میوں میں بہت متحرک تھی  اور بڑے معیاری مشاعرے اور ادبی پرو گراموں کے انعقاد کے لئے  خلج میں ایک نمایاں اور منفرد  مقام حاصل کر چکی تھی –  الثقافہ سے التفات بڑھتا گیا اور یوں ہوا کہ مجھے اس کا  چئیرمین منتخب کر لیا گیا اور چار سال تک یہ فرض نبھا کر آج بھی اس کے بورڈ ممبر کے فرائیض انجام دے رہا ہوں۔

میں عالم امکاں کی تقریب پزیرائی کے انعقاد پر انجمن فروغ ادب  کے تمام رفقائے کار  بالخصوص طاہر عظیم  کا بے حد ممنون و مشکور ہوں کہ انھوں نے اپنے عالمی مشاعرہ کے موقع پر مجھے یہ اعزاز بخشا-“

کتاب کی رسم اجراء میں تمام شعرا منتطمین،معاونین  اور اہم  شخصیات شریک ہوئے جن کا ذکر  ان سطور میں پہلے ہی کیا گیا ہے۔تقریب کے اختتام کے بعد باقاعدہ مشاعرہ شروع کیا گیا، مشاعرے  کی نظامت ہندوستان سے تشریف لائے ہوئے معروف ناظم ِ مشاعرہ محترم منصور عثمانی نے کی، جبکہ کرسی صدارت کو کراچی سے خصوصی دعوت پر آئے ہوئے  کئی کتابوں کے خالق معروف شاعر و ادیب محترم خواجہ رضی حیدر نے رونق بخشی۔

شعرائے کرام کے منتخب اشعار:

 اسد اقبال

اس طرح سے درد کو  حوصلہ دیا گیا

رو پڑا جو میں کبھی تو ہنسا دیا گیا

عدنان افضال

ہجر میں ہم نے جی کے دیکھا ہے

ہجر میں کوئی مر نہیں جاتا

طاہرعظیم

ایک صف میں ژجر لگے ہوئے ہیں

ہم بھی ایک شاخ پر لگے ہوئے ہیں

دل کا انگن بھرا ہے کانٹوں سے

پھول دیوار پر لگے ہوئے ہیں

رخسارناظم آبادی

یہ دنیاوی نظامِ وقت بھی کیا

فقط چوبیس گھنٹے ہیں کھڑی میں

یہاں پہنچے تو خالی ہاتھ تھے ہم

یہی ہونا ہے آخر واپسی میں

احمد عادل

میکدہ سا بنا دیا گھر میں

اور ساقی بٹھا دیا گھر میں

اس کی ضد تھی کہ اہتمام کروں

میں نے خود بچھا دیا گھر میں

ندیم راجہ

سایہ کیسا صرف شجر لکھ لینے سے

اڑسکتے ہو تم کیا پر لکھ لینے سے

ساری دنیا مٹھی میں آجاتی ہے

تیرا نام ہتھیلی پر لکھ لینے سے

تم سے پہلے جو وقت گزرا تھا

زندگی میں شمار تھوڑی ہے

زبیر علی تابش

 

وہ جس نے آنکھ عطا کی ہے دیکھنے کے لیے

اسی کو چھوڑ کے سب کچھ دکھائی دیتا ہے

چوڑیا بیچ کے وہ میرے لیےلائی گٹار

تار چھیڑوں تو کھنکنے کی صدا آتی ہے

تمھاری دستکوں پر رحم آتا ہے مجھے لیکن

یہ دروازہ کئی دن سے کھلا تھا تب کہاں تھے تم

پھلوں پر حق جتانے آئے ہو تو یہ بھی بلادو

میں جب پودوں کو پانی دے رہا تھا تب کہاں تھے تم

تہذیب حافی

کب سے اس نے کھینچا ہے کھڑکی کا پردہ ایک طرف

اس کا کمرہ ایک طرف  ہے باقی دنیا ایک طرف

میں نے اب تک جتنے لوگوں میں خود کا بانٹا ہے

بچپن سے رکھتا آیا ہوں تیرا حصہ ایک طرف

خود کو آئینے میں کم دیکھا کرو

ایک دن سورج مکھی بن جاؤ گے

کہاں سویا ہے چوکیدار میرا

یہ کیسے لوگ اندر آرہے ہیں

سمندر کرچکاتسلیم ہم کو

خزانے خود پہ اوپر آرہے ہیں

ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر

سنا بہت تھا مگر آج میں نے سمجھا بھی

بڑا ہنر ہے خوشی کے  بغیر ہنسنا  بھی

میں سوچتی ہی رہی کاش پاس سے گزرے

کبھی کبھی تو مرے پاس سے وہ گزرا بھی

عجیب درد میرے نام کرنے والا تھا

وہ اپنے وعدوں سے یکسر مکرنے والا تھا

نجانے کیسے نظر سے اتر گیا یکدم

وہ ایک شخص جو دل میں اترنے والا تھا

منصور عثمانی

عشق ان کو عطا نہیں ہوتا

جن کے دل میں خدا نہیں ہوتا

وقت ہوتا ہے بے وفا یارو

آدمی بے وفا نہیں ہوتا

غزل کے شہر میں شاعر ہزار ہیں لیکن

کسی کا میر سے اونچا مقام تھوڑی ہے

بس اک خلوص کا دھاگہ ہے زندگی اپنی

بکھرتے ٹوٹتے رشتوں میں جان تھوڑی ہے

خواجہ رضی حیدر

ترا وجود تھا یا پھول تھے چنبیلی کے

مہک اٹھے تھے درو بام تک حویلی کے

طلسمِ قوسِ قزح پرتوے بدن تھا ترا

حنا میں رنگ تھے شام تری ہتھیلی کے

مل گئی جب بھی نظر ہوگئے دونوں خاموش

کچھ نہ کی بات مگر ہوگئے دونوں خاموش

اجنبی رات نے جب پاؤں پھسارے گھر میں

صحنِ دل،سایہ در ہوگئے دونوں خاموش

ڈوبتی شام نے جب دل میں اداسی رکھی

پھر ہوا اور شجر ہوگئے دونوں خاموش

Recommended