اُردو کے لئے وہ لوگ بھی فکر مند ہیں جو اردو کی روٹی نہیں کھاتے۔ تاجر پیشہ لوگ، سرکاری ملازم، کوئی چُوڑی والا، کوئی جھاڑو والا، کوئی باٹلی والا، عربی مدرسوں کے طالب علم، وغیرہ وغیرہ۔ یہ معاملہ اقتصادی نہیں ہے۔ یہ عشق کا معاملہ ہے۔ اہلِ خرد نہیں سمجھتے۔ یہ اہلِ جنوں کا شیوہ ہے۔ کاروبارِ الفت میں سود کیا زیاں کیا تم نہ جان پاؤ گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس کوئی واضح تصوّر نہیں ہے اردو کی ترویج و ترقی کے لئے۔ یہ لوگ منظم بھی نہیں ہیں۔ ان میں کوئی قائد بھی نہیں ہے۔ ان کے پاس لا محدود وسائل بھی نہیں ہیں۔ وزراء اور حکمرانوں سے ان کے مراسم بھی نہیں ہیں۔ بس لے دے کر ایک جذبہ ہے اردو کے لئے کچھ کرنے کا۔ اس قبیل کے لوگ ہندستان کے مختلف حصّوں میں اپنے اپنے طور پر سرگرم ہیں۔ کچھ اور سمجھ میں نہ آئے تو سال میں ایک مرتبہ آپس میں چندہ جمع کر کے ایک آل انڈیا مشاعرہ منعقد کرتے ہیں۔ کسی بشیر بدر، کسی وسیم بریلوی، کسی راحت اندوری، کسی منور رانا کو بلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ مہنگے حضرات دبئی یا دوحہ قطر میں مصروف ہیں یا مشاعرے کے بجٹ سے باہر ہیں تو کسی جوہر سے کام چلاتے ہیں۔ دو شاعرات، دو تین مزاحیہ شاعر، تین ترنّم باز اور کچھ ناظمِ مشاعرہ کی لفاظی، مشاعرے کی اصطلاح میں مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت۔ مشاعرے سے اردو کو کس قدر فائدہ پہنچا ہے یہ سوال اگر آپ وسیم بریلوی صاحب سے پوچھیں گے تو جواب ہوگا کہ آزادی کے بعد کے نا مساعد حالات میں جب اردو بسترِ مرگ پر تھی، اردو جانکنی کے عالم میں تھی تو مشاعروں نے ہی اردو کو نئی زندگی عطا کی۔ اردو تو کوما میں چلی گئی تھی۔ وینٹیلیٹر پہ تھی۔ مشاعروں نے اردو زبان کو زندہ کر دیا۔
یہی سوال اگر آپ قومی اردو کونسل کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر حمیداللہ بھٹ سے پوچھیں گے تو جواب ہوگا کہ اردو مر چکی تھی، کفن دفن کا انتظام ہو رہا تھا کہ حکومت نے ترقی اردو بورڈ قائم کر دیا۔ بس مردہ جسم میں جان آ گئی۔ اردو دوبارہ ذرا سی چلنے پھرنے کے قابل ہوئی کی ترقی اردو بورڈ کو ترقی دیکر قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان بنا دیا گیا۔ اور جب ڈاکٹر حمید اللہ بھٹ اس کے ڈائریٹر بنائے گئے تب جاکر صحیح معنوں میں اردو کو نئی زندگی ملی۔ خیر معاملہ جو بھی ہو۔ ہم بات کر رہے تھے عاشقانِ اردو کی۔ یہ جو دوسری قسم کے عاشقانِ اردو ہیں یہ مقامی سطح پہ اردو بیداری مہم بھی چلاتے رہتے ہیں۔ کچھ تنظیمیں بھی اردو کے لئے کام کر رہی ہیں۔ ان میں کچھ لوگوں کے اپنے مفادات بھی ہوتے ہیں۔ مگر زیادہ تر مخلص لوگ ہیں۔ اپنی جیب سے پیسے خرچ کرتے ہیں۔ نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پرواہ۔ مگر ان چھوٹی چھوٹی مقامی تنظیموں کا آپس میں کوئی تال میل نہ ہونے کے سبب یہ کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے سے قاصر ہیں۔
فیسبک کے ذریعے مجھے خبر ملتی رہتی ہے کہ سمندر کنارے گوا میں اردو کی ممتاز شاعرہ فوزیہ رباب اردو لرننگ کورس چلا رہی ہیں۔ فوزیہ رباب کی اپنی مصروفیات ہیں۔ وہ مشاعروں میں شرکت کرتی ہیں، نیشنل انٹر نیشنل سیمیناروں میں مقالے پڑھتی ہیں، ان کی گھریلو ذمہ داریاں ہیں۔ ان سب سے وقت نکال کر وہ کس مقصد کے تحت غیر اردو داں طبقے میں اردو کا چراغ جلانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں؟ دراصل یہی اردو سے محبت ہے۔ گُوا ساحل سمندرپر مستی کے لئے جانا جاتا ہے۔لیکن تن تنہا فوزیہ رباب نے اس چھوٹی سی ریاست کو اردو زبان کے حوالے سے قابل توجہ بنا دیا۔ فوزیہ رباب کے حوصلوں کو سلام۔ ہمیں ہندوستان کے ہر شہر میں ایک فوزیہ رباب چاہئے۔
گُوا کے بعد ذرا اک نظر راجستھان کے اُدئے پورپر بھی۔ یہاں بھی ایک بے باک، بے لاگ اور بے لوث خاتون نے اپنے دم پر اردو لرننگ کورس شروع کر کے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں غیر اردو داں لوگوں کو اردو سے جوڑنے کا کام کیا ہے۔ ڈاکٹر ثروت خان کا نام تو آپ نے سنا ہی ہوگا؟ جی ہاں وہی ’اندھیرا پگ‘ اور ’کڑوے کریلے‘ والی ثروت خان۔ اردو کی ممتاز فکشن نگار ثروت خان۔ میں یہاں ثروت خان کے افسانوں اور ناولوں پر کوئی بات نہیں کروں گا۔ میں بات کر رہا ہوں کہ کیسے ڈاکٹر ثروت خان نے تنہا ادئے پور میں اردو زبان کی ایک مشعل روشن کر رکھی ہے۔ آپ اور کہیں نہ جائیں صرف فیسبک پر ڈاکٹر ثروت خان اور فوزیہ رباب کو فالو کیجئے۔ اندازہ ہوگا کہ کس طرح اپنے دم پر اردو زبان کی خدمت کی جاتی ہے، اور کی جا سکتی ہے۔
تحریر: ڈاکٹر شفیع ایوب
ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جے این یو، نئی دہلی۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…