Urdu News

اردو نغمہ نگاری کو نئی جہت دینے والے مشہور و معروف شاعر گلزارؔ صاحب

مشہور و معروف شاعر گلزارؔ صاحب

پیش کش : اعجاز زیڈ ایچ

آج  ہی کے  دن  18؍اگست 1936 کو گلزار صاحب کی پیدائش ہوئی تھی، جنہوں نے اردو نغمہ نگاری کو نئی جہت عطا کی

نام سمپورن سنگھ کالرا، اور تخلص گلزارؔ ہے۔ 18؍اگست 1936ء کو دینہ ضلع جہلم پاکستان میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے سبب ہندوستان نقل مکانی کی۔ کالج کے دور میں مالی مشکلات کے باعث، تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔ بعد ازاں عملی زندگی میں آکر تعلیم مکمل کی اور نیویارک یونیورسٹی سے فلم سازی میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ ابتدا میں وہ بطور مکینک موٹرزگیراج میں سات سال کام کرتے رہے۔ بمبئی میں کرشن چندر کے مکان میں کرایہ دار رہے۔ جہاں ادبی و فلمی دنیا سے ان کی وابستگی ہوئی۔ ساحر لدھیانوی کے مداح رہے۔ احمد ندیم قاسمی کو "بابا" کہہ کر مخاطب کرتے۔ 2004ء میں احمد ندیم قاسمی بیمار ہوئے تو ان کی عیادت کے لیے پاکستان گئے اور پھر ان کے انتقال پر بھی گئے۔ اپنی جنم بھومی جہلم، سفیدلباس اور اسلامی القاب و آداب سے بہت محبت کرتے ہیں۔

 گلزارؔ کے شعری مجموعوں میں ’’جانم،چاند پکھراج کا،رات پشمینے کی،پندرہ پانچ پچھتر،پلوٹو اورتروینی شامل ہیں۔ "گر یاد رہے" ان کے خاکوں کا مجموعہ ہے۔ گلزار نظم کی نئی قسم "تروینی" کے موجد بھی ہیں۔  ان کے افسانوی مجموعوں میں ’’دھواں،دستخط اور ڈیوڑھی‘‘ شامل ہیں۔ گلزارؔ نے بطور ہدایت کار ’’اجازت،انگور،دل سے، معصوم،آندھی،پریچے،موسم اور ماچس‘‘جیسی فلمیں بنائیں۔

ان کا ٹیلی ڈراما مرزا غالب ایک کلاسیک کی حیثیت رکھتا ہے۔ گلزارؔ نے اردو میں شاعری کی اور گیت لکھے جو ہمیشہ کانوں میں رس گھولتے رہتے ہیں۔ انھیں 2004ء میں بھارتی حکومت کی طرف سے پدما بھوشن کا اعزاز ملا۔ اُن کی بے لوث خدمات کے لیے 11ویں اوسِیانز سِنے فین فلم فیسٹیول کی جانب سے 2009 کا لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ دیا گیا۔ ان کی گیتوں کے تراجم کی انگریزی میں کتاب بھی شائع ہو چکی ہے۔ گلزار صاحب کو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیور سٹی،حیدرآباد ننے 3 مارچ 2012ء کو اپنے چوتھے کانوکیشن میں ڈی۔ لٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا، جب کہ 2013ء میں انہیں ہندوستانی سینما کا سب سے بڑا اعزاز دادا صاحب پھالکے دیا گیا۔ ہالی وڈ کے آسکر ایوارڈ ، گریمی ایوارڈ، 21 مرتبہ فلم فیر ایوارڈ، اور قومی یکجہتی کے اندرا گاندھی ایوارڈ ، سے بھی نوازا گیا۔ اپریل 2013ء میں ان کو آسام یونیورسٹی کا چانسلر مقرر کیا گیا۔ گلزارؔ کو اپنی زندگی میں ہی جو شہرت عزت اور مقبولیت ملی وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

ممتاز شاعر گلزارؔ کے یوم پیدائش پر منتخب کلام خراجِ تحسین

ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے

وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے

جس کی آواز میں سلوٹ ہو نگاہوں میں شکن

ایسی تصویر کے ٹکڑے نہیں جوڑا کرتے

لگ کے ساحل سے جو بہتا ہے اسے بہنے دو

ایسے دریا کا کبھی رخ نہیں موڑا کرتے

جاگنے پر بھی نہیں آنکھ سے گرتیں کرچیں

اس طرح خوابوں سے آنکھیں نہیں پھوڑا کرتے

شہد جینے کا ملا کرتا ہے تھوڑا تھوڑا

جانے والوں کے لیے دل نہیں تھوڑا کرتے

جا کے کہسار سے سر مارو کہ آواز تو ہو

خستہ دیواروں سے ماتھا نہیں پھوڑا کرتے

❀◐┉══════════┉◐❀

گلوں کو سننا ذرا تم صدائیں بھیجی ہیں

گلوں کے ہاتھ بہت سی دعائیں بھیجی ہیں

جو آفتاب کبھی بھی غروب ہوتا نہیں

ہمارا دل ہے اسی کی شعاعیں بھیجی ہیں

اگر جلائے تمہیں بھی شفا ملے شاید

اک ایسے درد کی تم کو شعاعیں بھیجی ہیں

تمہاری خشک سی آنکھیں بھلی نہیں لگتیں

وہ ساری چیزیں جو تم کو رلائیں، بھیجی ہیں

سیاہ رنگ چمکتی ہوئی کناری ہے

پہن لو اچھی لگیں گی گھٹائیں بھیجی ہیں

تمہارے خواب سے ہر شب لپٹ کے سوتے ہیں

سزائیں بھیج دو ہم نے خطائیں بھیجی ہیں

اکیلا پتا ہوا میں بہت بلند اڑا

زمیں سے پاؤں اٹھاؤ ہوائیں بھیجی ہیں

❀◐┉═════✺✺═════┉◐❀

اوس پڑی تھی رات بہت اور ہلکی تھی گرمائش پر

سِیلی سی خاموش میں، وہ بولے تو فرمائش پر

فاصلے ہیں بھی اور نہیں، ناپا تولا کچھ بھی نہیں

لوگ بضد رہتے ہیں پھر بھی رشتوں کی پیمائش پر

منہ موڑا اور دیکھا کتنی دُور کھڑے تھے ہم دونوں

آپ لڑے تھے ہم سے بس اِک کروٹ کی گنجائش پر

کاغذ کا اِک چاند لگا کر رات اندھیری کھڑکی میں

دِل میں کتنے خوش تھے اپنی فرقت کی آرائش پر

دِل کا حجرہ کتنی بار اُجڑا بھی اور بسایا بھی

ساری عمر کہاں ٹھہرا ہے کوئی ایک رہائش پر

دھُوپ اور چھاؤں بانٹ کے تم نے آنگن میں دیوار چنی

کیا اتنا آسان ہے زندہ رہنا اس آسائش پر

Recommended