شعبہ اردو اگر چمکتا ہے ہندی وبھاگ کا بھاگ بھی کھل سکتا ہے: پروفیسر ارون ہوتا

<p style="text-align: right;">
 شعبہ    اردو اگر چمکتا ہے ہندی وبھاگ کا بھاگ بھی کھل سکتا ہے: پروفیسر ارون ہوتا</p>
<div style="text-align: right;">
ویسٹ بنگال اسٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے اولین یک روزہ سیمینارکا کامیاب انعقاد</div>
<div style="text-align: right;">
17/ مارچ (کولکاتہ): آج کا دن مغربی بنگال کے اردو ادب و ثقافت کی تاریخ میں بعض لحاظ سے ایک تاریخی حیثیت کا حامل قرار پاتا ہے کیوں کہ آج ہی کے دن ویسٹ بنگال اسٹیٹ یونیورسٹی، باراسات کے شعبہئ اردو نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے اشتراک سے معاصر اردو افسانہ رویے اور رجحانات کے موضوع پر جس یک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا تھا وہ نہ صرف لاک ڈاؤن کے بعد مغربی بنگال میں کسی تعلیم گاہ کی جانب سے پہلا آف لائن سیمینار تھا بلکہ پورے باراسات کی تاریخ میں یہاں کا اولین اردو سیمینار تھا۔</div>
<div style="text-align: right;">
سیمینار کا اہتمام یونیورسٹی کے اکاڈمک بلاک کی پہلی منزل پر واقع سیمینار ہال میں کیا گیا تھا۔ افتتاحی اجلاس کے نقیب  ڈاکٹر رضی شہاب(اسسٹنٹ پروفیسر شعبہئ اردو WBSU) نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائریکٹر کے پیغام کے ساتھ مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے انہیں اسٹیج پر تشریف لانے کی دعوت دی۔ اس سیمینار میں بطور مہمان خصوصی معروف افسانہ نگار محمود یٰسین نے شرکت کی۔ یونیورسٹی کے شعبہئ ہندی کے صدر پروفیسر ارون ہوتاسمیٹ شعبہ ئ سنسکرت کے پروفیسر ایان بھٹہ چاریہ، شعبہ ئ بنگلہ کے صدر موہنی موہن سردار، مولانا آزاد کالج کے صدر شعبہئ اردو ڈاکٹر دبیر احمد اور ہگلی محسن کالج کے استاد ڈاکٹر عمر غزالی نے سیمینار میں شرکت کی اور سامعین کو اپنے گرانقدر خیالات سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا۔ </div>
<div style="text-align: right;">
شعبہئ اردو کے سینئر استاذ ڈاکٹر تسلیم عارف نے تعارفی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ ”اگرچہ یونیورسٹی کا قیام 2008میں عمل میں لایا جاچکا تھا لیکن یہاں کے شعبہئ اردو کو 2019میں اپنے فرائض کی انجام دہی کا موقع میسر آیا۔ تاہم قلیل مدت میں بھی شعبے نے میر تقی میر پر ویبینار کرایااور کچھ دیگر ادبی پروگراموں کے علاوہ آج کا سیمینار بھی اس لیے یادگار ہے کہ ریاست کی جملہ درس گاہوں کے مقابلے میں لاک ڈاؤن کے بعد اردو کا پہلا باضابطہ آف لائن سیمینار کہلانے کا مستحق قرار پاتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس سیمینار میں موضوع کے تعلق سے نئے ابواب وا ہوں گے، انوکھی اور اچھوتی باتیں پیش کی جائیں گی۔ </div>
<div style="text-align: right;">
ڈاکٹر ارون ہوتا نے فرمایا”مجھے کل جیسا لگ رہا ہے کہ اردو وبھاگ میں دو ادھیاپک آئے ہوئے تھے۔ جنہوں نے یہ احساس دلایا کہ یہ وبھاگ اگر چمکتا ہے تو ہندی وبھاگ کا بھاگ بھی کھل سکتا ہے۔“ انہوں نے موضوع سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2021میں اگر کوئی لکھ رہا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ سمکالین ہو۔ رچنا کار اپنے سمکال سے کتنا ادھک جوجھ کر رچنا رچ رہا ہے۔ سمکالین بننے کے لیے کچھ پیمانے ہوتے ہیں۔“</div>
<div style="text-align: right;">
پروفیسر ایان بھٹہ چاریہ نے کہا کہ ادب سماج کا درپن ہے جس کا مول ادّیش آنند پراپت کرنا ہے۔ کسی بھی جذبے کے اظہارسے اس کا رس حاصل کرنا ہے۔ آج عام خیال یہ ہے کہ پراچین کال میں جو لکھا جاچکا ہے اس سے بہتر اب ہونہیں سکتا لیکن آدھونک کال کے ساہتیہ کو بھی چکھنا چاہیے۔ اس کا مزہ پانے والا تب ہی صحیح فیصلہ کرپائے گا۔ </div>
<div style="text-align: right;">
پروفیسر موہنی موہن سردار نے شعبہئ اردو کے اساتذہ اور طلبہ کی کوششوں کی ستائش کی اور اردو ادب سے اپنی وابستگیوں کا اظہار کیا۔ اس موقع پر یونیورسٹی کے لائبریرین نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ </div>
<div style="text-align: right;">
ڈاکٹر عمر غزالی نے کہا کہ ہمیں نہ تو ماضی کو فراموش کرنا چاہیے نہ ہی اس کا اتنا زیادہ گن گانا چاہیے کہ ہمارا حال بے حال ہوجائے۔ سماج بدل رہا ہے، سوچ بدل رہی ہے، اتنی تبدیلیوں سے ہمارے افسانوں کے موضوعات میں بھی تبدیلی آنا چاہیے۔ نئے ابعاد بھی واضح ہوں کہ ان کی روشنی میں اردو افسانہ آگے کی منزلیں کامیابی سے طے کرپائے۔</div>
<div style="text-align: right;">
ڈاکٹر دبیر احمد نے کہا کہ آج کا ماحول خوف کا ہے، دہشت کا ہے اور یہ خوف و دہشت تخلیقی استعارہ بن چکے ہیں۔ مہمان خصوصی محمود یٰسین نے کہا کہ ادب کا سیاست سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ فرانسیسی انقلاب دراصل ادب کی وجہ سے آیا تھا اس لیے ادب کو سیاست سے کچھ اتنا بیر بھی نہیں رکھنا چاہیے۔ </div>
<div style="text-align: right;">
اس سیمینار میں افتتاحی اجلاس کے علاوہ دو تکنیکی اجلاس ہوئے۔ پہلے اجلاس کی صدارت ڈاکٹر دبیر احمد نے فرمائی اور نقابت شعبہئ اردو بھیرب گانگولی کالج کے استاد طیب نعمانی نے کی۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر افضال عاقل (شعبہئ اردو ویسٹ بنگال اسٹیٹ یونیورسٹی) نے ’معاصر اردو افسانہ اور نئے امکانات‘، ڈاکٹر شکیل الزماں حبیب (شعبہئ اردو شیب پور دینا بندھوانسٹی ٹیوشن) نے ’ساجد رشید کے افسانوں کا فکری مطالعہ‘ نخلستان میں کھلنے والی کھڑکی کے حوالے سے‘، ڈاکٹر شبنم افروز نے ’شائستہ فاخری کے افسانوں میں عورت‘، ڈاکٹر محمد علی حسین شائق(استاد آربی سی کالج) نے ’مغربی بنگال میں معاصر اردو افسانہ رویے اور رجحانات‘، رئیس احمد (شعبہئ اردو سریندر ناتھ کالج) نے ’معاصر اردو افسانہ اور صدیق عالم‘، مقصود دانش نے ’معاصر خواتین افسانہ نگاروں کا تخلیقی رویہ‘ کے عنوان سے مقالے پڑھے۔</div>
<div style="text-align: right;">
ڈاکٹر دبیر احمد نے صدارتی خطبہ کے دوران ہر مقالہ نگار کے مقالے پر اپنی گراں قدر رائے دیتے ہوئے جہاں ان کی ہمت افزائی کی وہیں ان کے تسامحات بھی واضح کیے اور پھر کہا کہ آج کے سیمینار نے ثابت کردیا کہ ڈاکٹر تسلیم عارف اور ڈاکٹر رضی شہاب وہ مضبوط کاندھے ہیں جنہوں نے پروگرام کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کی ساری ذمہ داریوں کا بوجھ بحسن و خوبی برداشت کیا اور آئندہ بھی شعبے کی کامیابی کا بیڑہ اٹھا لیا ہے۔ </div>
<div style="text-align: right;">
دوسرا اجلاس ظہرانے کے فوراً بعد ڈاکٹر عمر غزالی کی صدارت میں منعقد ہوا۔ نقابت کے فرائض ڈاکٹر انور سراج (شعبہئ اردو، آربی سی کالج) نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں دائم محمد انصاری(شعبہئ اردو،کلکتہ گرلز کالج)نے ’ذات کی دریافت، ماضی کی بازیافت اور نیّر مسعود‘،ڈاکٹر صوفیہ شیریں (شعبہئ اردو سریندرناتھ ایوننگ کالج) نے ’معاصر اردو افسانوں میں اقلیتی ڈسکورس‘، محمد ارشاد (ریسرچ اسکالر کلکتہ یونیورسٹی) نے ’اقبال مجید تلخ حقیقتوں کا افسانہ نگار‘، ڈاکٹر محمد راشد(شعبہئ اردو لال باغ کالج ہوڑہ) نے ’انیس رفیع اپنے فن کے آئینے میں‘ ڈاکٹر عزیر احمد(شعبہئ اردو اسلام پور کالج) نے ’معاصر اردو افسانوں میں دیہی مسائل کی عکاسی‘، ڈاکٹر عرشیہ اقبال نے ’محمود یسین اور ان کے افسانے‘ اور ڈاکٹر عظیم اللہ ہاشمی نے ’فیروز عابد کے افسانوں میں احتجاج اور مزاحمت‘ کے عنوانات کے تحت اپنے مقالے پیش کیے۔ </div>
<div style="text-align: right;">
صدر اجلاس ڈاکٹر عمر غزالی نے پہلے سارے مقالوں سے متعلق اپنی رائے دی اور مشورہ دیا کہ تحریر پیش کرنے سے قبل اس کی درستگی ہوجانا چاہیے تھی تاکہ جو تسامحات مقالوں میں در آئے ہیں ان سے بچنے کی ضرورت تھی۔</div>
<div style="text-align: right;">
آخر میں ڈاکٹر تسلیم عارف نے جملہ مہمانان، مقالہ نگاروں اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے بالخصوص قومی کونسل کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس نئے شعبے کو اتنا اچھا پروگرام منعقد کرنے کے لیے مالی تعاون پیش کیا۔ اس موقعے پر شعبہئ اردو ویسٹ بنگال اسٹیٹ یونیورسٹی کے پہلے طالب علم آصف جمال مظہری نے اپنی خوش کن آواز میں میر اور اقبال کے چند اشعار سے سامعین کو محظوظ کیا۔ اس پروگرام میں شہر کی کئی اہم شخصیات نے شرکت کی جن میں معروف افسانہ نگار و مترجم عظیم انصاری، خورشید انور، نسیم اشک،خالد محمد زبیر، ڈاکٹر ونود کمارکے لیے شعبہئ ہندی کے ریسرچ اسکالر اور شعبہئ اردو کے طلبہ و طالبات شامل ہیں۔</div>
<div style="text-align: right;">
 </div>
<div>
<div style="text-align: right;">
٭٭٭</div>
</div>

Dr. S.U. Khan

Dr. Shafi Ayub editor urdu

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago