Urdu News

عید کے متعلق کچھ دانشوران دہلی کے خیالات

پروفیسر انور پاشا، پروفیسر خواجہ اکرام، ایڈوکیٹ خلیل الرحمن، ایڈوکیٹ ناصر عزیز اور ڈاکٹر شفیع ایوب،

دنیا میں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں وہاں عید خوشی و شادمانی کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ عرب ممالک کے علاوہ انڈونیشیا، ملیشیا و بر صغیر ہند و پاک میں مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔ یورپ میں جو مسلمان آباد ہیں ان کی عید کا منظر کچھ مختلف ہوتا ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ہندوستان کی عید سب سے زیادہ رنگا رنگ ہوتی ہے۔ یہ رنگا رنگی ہندوستان کی قدیم تہذیب سے کسی حد تک مستعار ہے۔ ہندوستان میں عید کے لئے سیویاں پکانے اور کھلانے کا بہت پرانا رواج ہے۔ الگ الگ قسم کے کھانے پکائے اور کھلائے جاتے ہیں۔ عید کی تہذیبی عکاسی کے حوالے سے ہم نے دہلی میں مقیم کچھ ایسے دانشوروں سے بات کرنے کی کوشش کی جو اپنے اپنے میدان میں ممتاز حیثیت کے مالک ہیں۔

انڈیا نیریٹو اردوکی ٹیم نے سب سے پہلے ممتاز نقاد اور دانشور پروفیسر انور پاشا سے رابطہ قائم کیا۔ معلوم ہوا کہ پروفیسر انور پاشا ان دنوں لندن میں مقیم ہیں۔ واضح رہے کہ پروفیسر انور پاشا کا تعلق بہار کے تاریخی شہر موتیہاری (چمپارن) سے ہے۔ وہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں سینٹر آف انڈین لینگویزیز کے چیئر پرسن رہ چکے ہیں۔ اردو زبان و ادب پر ان کی گہری نظر تو ہے ہی لیکن انھوں نے سماج کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ وہ ایک سوشل اور پولیٹیکل کمنٹیٹر کے طور پر بھی ملک گیر شہرت رکھتے ہیں۔ پروفیسر انور پاشا ان دنوں لندن میں مقیم ہیں لیکن وہ ہر وقت اپنی ریاست اور اپنی یونیورسٹی کی خبر رکھتے ہیں۔ اپنے علاقے سے ان کا گہرا لگاؤ ہے۔ انھوں نے کہا کہ عید ہماری مشترکہ تہذیب کی عکاس ہے۔ عیدکے تہوار سے ہمیں مساوات کا سبق ملتا ہے۔ ہم ہندو مسلم سکھ عیسائی کی تفریق کئے بغیر ایک دوسرے سے گلے مل کر انھیں عید مبارک کہتے ہیں۔ پروفیسر انور پاشا کا کہنا ہے کہ اگر چہ اس سال انھیں لندن میں عید کا تہوار منانا پڑا ہے لیکن وہ اپنے وطن کی عید کو ہمیشہ یاد کرتے ہیں۔

دہلی کے علمی و ادبی حلقے میں خلیل الرحمن ایڈوکیٹ کا نام بہت جانا پہچانا ہے۔ خلیل الرحمن صاحب خالص دلی والے ہیں۔ پرانی دلی میں عید کیسے منائی جاتی ہے اور کیا کیا پکوان پکائے جاتے ہیں اس پر خلیل الرحمن ایڈوکیٹ کی بڑی گہری نظر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دلی والے ہمیشہ سے بہترین کھانا پکانے اور کھلانے کے لئے مشہور رہے ہیں۔ تو پھر عید پر نہ صرف ان کے گھروں میں چار پانچ قسم کی سیویاں پکائی جاتی ہیں بلکہ گوشت کے کئی ڈشیز بنائی جاتی ہیں جن میں شامی کباب اور قورمہ لازمی ہے۔

قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین عالمی شہرت کے حامل دانشور اور اسکالر ہیں۔ وہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں اردو زبان و ادب کے استاد ہیں۔دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔ صرف ہندوستان کی ثقافت ہی نہیں بلکہ مصر، ازبکستان اور ترکی وغیرہ کی تہذیب و ثقافت پر ان کی گہری نظر ہے۔ وہ سعودی عرب و ایران کی تہذیب و ثقافت پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں عید کا تہوار جس شان سے مناتے ہیں وہ شاید ہی اور کہیں دیکھنے کو ملے۔ کیونکہ زیادہ تر ممالک میں صرف نماز کی ادائیگی پر زور رہتا ہے اس کا تہذیبی پہلو بہت اہمیت نہیں رکھتا۔ جبکہ ہندوستان میں نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس کا تہذیبی پہلو بھی بہت اہم ہے۔ پروفیسر خواجہ اکرام چونکہ اس وقت دہلی میں مقیم ہیں اور بہت بڑی تعداد میں طلبہ و اساتذہ ان کے مہمان ہوتے ہیں اس لئے ان کے دسترخوان پر نہ صرف طرح طرح کی سیویاں نظر آتی ہیں بلکہ کباب اور قورمہ کا انتظام بھی رہتا ہے۔ پروفیسر خواجہ اکرام کا سلسلہ خانقاہوں سے ہے اس لئے ان کے دروازے سب کے لئے کھلے رہتے ہیں۔ پروفیسر خواجہ اکرام ایک بہت اچھے میزبان بھی ہیں اور جب عید کے دن کی میزبانی کا سوال ہو تو پھر خواجہ اکرام کا جواب نہیں۔

تاریخی شہر امروہہ کے رہنے والے اور گزشتہ تیس برسوں سے دہلی میں مقیم مشہور وکیل اور شاعر ناصر عزیز ایڈوکیٹ بھی اپنی میزبانی کے لئے مشہور ہیں۔ ناصر عزیز ایڈوکیٹ کا تعلق چونکہ امروہہ سے ہے اس لئے وہ دلی میں رہ کر بھی وہ سب انتظامات کرتے ہیں جو امروہہ والوں کی شان ہے۔ ایڈوکیٹ ناصر عزیز کا کہنا ہے کہ عید کے روز اپنے سے چھوٹوں کو عیدی دینے کا اپنا الگ ہی لطف ہے۔ عیدی لینے والے کی خوشی اس کی آنکھوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح جب آپ عید کے روز گلے ملتے ہیں تو یہ نہیں دیکھتے کہ سامنے والا ڈپٹی کلکٹر ہے یا چپراسی۔ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز والی جو بات علامہ اقبال نے کہی ہے وہ عید کے روز ہم بہت صاف صاف دیکھ پاتے ہیں۔ ناصر عزیز صاحب کا کہنا ہے کہ ہمیشہ ہمیں صدقہ فطر عید گاہ جانے سے پہلے نکال دینا چاہئے تاکہ وہ مستحقین تک پہنچ جائے۔ اسی طرح رمضان کے آخری عشرے میں ہمیں کثرت سے خیرات دینا چاہئے تاکہ جو غریب لوگ ہیں وہ بھی عید منا سکیں۔  

ہم نے دہلی کے مشہور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں درس و تدریس سے وابستہ شاعر و صحافی ڈاکٹر شفیع ایوب سے عید کے بارے میں بات کی۔ انھوں نے کہا:

’’عید خوشیوں کا تہوار ہے۔ رمضان کے تیس روزے مکمل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کا انعام ہے عید۔ ہندوستانی عید عرب دنیا کی عید سے ذرا مختلف ہے۔ ہندوستان کے مسلمان عید ”مناتے“ ہیں۔ عید ایک جشن ہے۔ عید ایک تہوار ہے۔  عید کے دن میلے لگا کرتے تھے اور کچھ مقامات پر اب بھی لگتے ہیں۔ ہندوستانی عید کو سمجھنے کے لئے ہمیں منشی پریم چند کا مشہور افسانہ ’عید گاہ‘ بھی پڑھنا چاہئے۔عید کا ایک خالص مذہبی پہلو ہے۔ عبادت کا ایک پہلو ہے۔ لیکن ہندوستان میں عید کا ایک تہذیبی پہلو ہے۔ عید کے دن گلے ملنا۔ چاند رات کا جشن منانا۔ چاند رات میں بازاروں میں نکلنا، یہ سب تہذیبی پہلو ہیں۔ عید میں نئے اور رنگ برنگے کپڑے پہننا، عیدی دینا اور لینا، سیویاں کھانا اور کھلانا، یہ سب عید کا تہذیبی پہلو ہے۔ عید کے حوالے سے شعراء نے خوب اشعار بھی کہے ہیں۔

پروفیسر انور پاشا، پروفیسر خواجہ اکرام، ایڈوکیٹ خلیل الرحمن، ایڈوکیٹ ناصر عزیز اور ڈاکٹر شفیع ایوب، عید ملن، عید مبارک، عید کی خوشی، عید کا تہوار، رمضان، آخری عشرہ

Recommended