کرونا جیسی مہلک وبا کے بعد دوبارہ بڑے اور دلکش انداز میں لوٹا’جشن ریختہ‘
ساتویں جشن ریختہ کی سہ روزہ تقریبات کا آغاز2 دسمبر سے دلی کے میجر دھیان چند نیشل اسٹیڈیم میں ہونے جارہا ہے۔ جشن ریختہ اپنی گزشتہ چھ تقریبا ت کی غیر معمولی کامیابی کے سبب دنیا بھر میں اردو زبان و تہذیب کے سب سے بڑے جشن کے طور پر جانا جاتا ہے۔
اس بار پھر سال کے اختتام پر یہ جشن دلی اور باہر کے لوگوں کے لیے اردو زبان،ادب اور تہذیب کو قریب سے جانے اور اس کے مختلف ذائقوں کو محسوس کرنے کا سبب بنے گا۔
2 دسمبرشام چھ بجے معروف نغمہ نگار و اسکرین رائٹر جاوید اختر جشن کا افتتاح کریں گے۔اس کے بعد مقبول غزل گائک ہری ہرن صاحب اپنے غزلوں سے رونق بخشیں گے۔ 3اور4 دسمبر کو ادبی مذاکرے، داستان گوئی،الٹا مشاعرہ،داستان امام ہند، قوالی،غزل سرائی،نوجوان شاعروں کی محفل، خواتین کا مشاعرہ اور بہت سی دلچسپ تقریبات کے ذریعے اردو زبان اور اس کے تہذیبی رنگوں کو پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
جشن میں ہر بار کی طرح اس بار بھی ادب، فلم،تھیٹر اور آرٹ کی دنیا سے اہم ترین شخصیات شامل ہورہی ہیں، جن میں خاص طور پر معروف فکشن عبد الصمد،خالد جاوید،صحافی ظفر آغا،قاضی جمال حسین، احمد محفوظ،ہربنس مکھیا،معین الدین جینا بڑے، جاوید اختر، شبانہ اعظمی،ڈاکٹر اعظم،انیس اشفاق، شافع قدوائی،کمار وشواس،صوفی قوال اسلم صابری،نصرالدین شاہ،رتنا پاٹھک، رچا شرما، قابل ذکر ہیں۔
جشن میں ہر سال کی طرح اس سال بھی چار اسٹیج ہوں گے اور چاروں پر ایک ساتھ الگ الگ رنگ اور ذائقے بھرے پروگرام چل رہے ہوں گے۔ 3تاریخ کوبزم خیال یعنی آڈیٹوریم میں اردوسے محبت کرنے والوں کے لیے ممتاز فکشن نویس عبد الصمد اور ذکیہ مشہدی کو سننا ایک یاد گار تجربہ ہوگا۔اس کے بعد قاضی جمال حسین و فرحت احساس صاحب داغ دہلوی کی زندگی اور ان کے عشق پر بات کریں گے۔
ہر شخص غالب کو اپنے طریقے سے دیکھتا، سمجھتا اور اس کا مرید ہوتا ہے’پوچھتے ہیں وہ کی غالب کون ہے‘ کے عنوان سے غالب کی شاعری اور ان سے جڑے قصوں پر مشہور نغمہ نگار جاوید اختر پرویز عالم کے ساتھ گفتگو کریں گے۔اسی دن صوفی قوال اسلم صابری اپنی گائگی سے شمع باندھیں گے۔
’فلمی گیتوں کی طلسم کاری‘ سیشن میں سیکھر روی جانی اور سلپا راو جیسے فن کار فلمی موسیقی میں اردو زبان اور ڈکسن پر گفتگو کریں گے۔ جشن کا اختتام ’رس برسے‘ کے تحت رچا شرما کیدل کش صوفی کلام سے ہوگا۔
اردو تہذیب اور کلچر کی نمائندگی کے لیے اردو بازار کا بھی اہتمام کیا جارہا ہے،جس میں اردو تہذیب کی یادگاروں کو نمائش اورخرید و فروخت کے لیے پیش کیا جائے گا۔ کھان پان کے شوقین لوگوں کے لیے ایک فوڈ کورٹ بھی لگایا جا رہا ہے جس میں کشمیری،حیدر آبادی، لکھنوی اور پرانی دلی کے پکوانوں کی بہار ہوگی۔
اردو تہذیب کے نام پر منعقد یہ جشن اردو رسم الخط سے خود کو دھیرے دھیرے الگ کر رہا ہے۔ 2022 جشن ریختہ کو دیکھ کر یہ اندازہ لگاپانامشکل نہیں ہوگا کہ ریختہ اب اردو کے لیے نہیں بلکہ رومن اور دیوناگری کے لیے بہتر کام کر رہا ہے۔ اردو احباب کے لیے یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
جشن ریختہ کے موقعے پر ریختہ فاؤنڈیشن کے بانی سنجیو صراف کا کہنا ہے کہ ”ہماری کوشش ہر ممکن ذریعے سے اردو زبان و تہذیب کو فروغ دنیا ہے۔ ریختہ ویب سائٹ کے ساتھ جشن ریختہ کی تقریبات بھی ہماری انہیں کوششوں کا حصہ ہیں۔ گزشتہ چھ برسوں میں جشن ریختہ کو ملی بے پناہ کامیابی اور ہر طبقے و عمر کے لوگوں میں اس کی مقبولیت نے ہمارے ارادوں کو مضبوط کیا ہے۔اس سال بھی ہم پوری توانائی کے ساتھ اس جشن کا انعقاد کر رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی یہ جشن اردو کی مٹھاس اور اس کی تہذیب میں پوشیدہ یگانگت کے پیغام کو دور تک لے کر جائے گا“۔