خواجہ احمد عباس کیوں بہت خاص تھے؟
خواجہ احمد عباّس کا شمار مشہور ترقی پسندافسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر اور عصمت چغتائی جیسے مشہور و معروف اردو افسانہ نگاروں کے ہم عصر خواجہ احمد عبّاس ایک اہم افسانہ نگار ہیں جو ترقی پسند مصنفین کے اہم ستون بھی ہیں۔ خواجہ احمد عباس کا پہلا افسانہ ”ابابیل‘‘ ۵۳۹۱ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شائع ہونے والے رسالہ ”جامعہ“ میں شائع ہوا،جس کا ذکر انھوں نے اپنی خود نوشت سوانح میں بھی کیا ہے۔ یہ افسانہ بقول عباس تیرہ جگہوں سے واپس آنے کے بعد ”جامعہ“ میں شائع ہوا، شائع ہوتے ہی اس افسانے کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ دنیا کی تقریباً تمام بڑی زبانوں مثلاً جرمن، انگریزی، فرانسیسی، روسی، عربی، چینی، سویڈش وغیرہ میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس افسانے کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ جرمن زبان میں افسانوں کا ایک انتخاب شائع ہوا۔ اس انتخاب میں ہندستان کی تین کہانیاں لی گئیں۔ ایک رابندر ناتھ ٹیگور کی، ایک ملک راج آنند کی اور ایک خواجہ احمد عباس کی۔ اسی طرح ملک راج آنند اور اقبال سنگھ نے کہانیوں کا جو انتخاب شائع کیا اس میں بھی ’ابابیل‘ شامل ہے۔
خواجہ احمد عباس کو ادیب اور قلم کار بنانے کے پیچھے سب سے بڑا محرک تھا ان کے خاندان کا ادبی اور علمی ماحول۔ ان کے خاندان کے کئی لوگ جو ان کے ہم عمر اور بزرگ بھی تھے ادب میں کافی شہرت رکھتے تھے۔قدرت نے انھیں ایسے خاندان میں پیدا کیا جو علم و فن میں یکتا تھا۔گھر
’مسدس حالی‘ والے خواجہ الطاف حسین حالی عباس صاحب کے پر نانا تھے۔ آپ کے والد کا نام خواجہ غلام السبطین تھا۔ مشہور ماہر تعلیم خواجہ غلام السیدین آپ کے چچا زاد بھائی تھے۔ پانی پت میں حالی مسلم ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد عباس علی گڑھ پہونچے۔ علی گڑھ کے تعلیمی ماحول میں وہ سب سے زیادہ اپنے چچازاد بھائی خواجہ غلام السیدین سے متاثر ہوئے۔ غلام السیدین خود ایک ماہر تعلیم اور ادیب تھے۔ انھوں نے عباس کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا۔ علی گڑھ میں عباس انکی ہی گارجین شپ میں رہے۔ انکی ذاتی لائبریری سے استفادہ کیا۔