یوم پیدائش کی پر خلوص مبارکباد عزیز نبیل سر ❤️
بات کچھ یوں ہے کہ اردو ادب سے گریجویشن کا پہلا سیمسٹر تھا، غزل کی بحث چل رہی تھی، جس کا سفر امیر خسرو، قلی قطب شاہ، ولی دکنی،حاتم، فائز، سودا، میر درد، میر تقی میر، غالب، ناسخ، مومن، فراق، جوش اور ناصر کاظمی کے گلیاروں سے ہوتا ہوا ما بعد جدیدیت کے مقام تک آ پہنچا تھا، اب غزل کے افق پر کچھ ایسے نام آ رہے تھے جن کا زمانہ بالکل ماضی قریب تک تھا، کسی طالب علم نے سوال کیا کہ سر دور حاضر میں ممتاز و معتبر شاعر کون ہیں، تو استاد محترم ڈاکٹر خالد مبشر صاحب گویا ہوئے کہ جناب عزیز نبیل اس دور کے نمائندہ شاعر ہیں۔ اس وقت مجھے میری خوش نصیبی کا احساس ہوا کہ عزیز نبیل سر کے فیسبک فہرست میں ہی سہی لیکن میں ان سے کسی بھی طرح وابستہ تو ہوں ۔🙂
عزیز نبیل اپنے ہم عصر شعرا میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ آپ ادبی اقدار کے مکمل رعایت کے ساتھ دور حاضر کے شعری تقاضوں پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری میں جدید تمدن اور گلوبلائزیشن کے مارے انسانوں کا دکھ اور ان کی غمگساری نظر آتی ہے۔ بھیڑ میں گم ہوتے فرد کی حساسیت کی آپ نے کیا خوب عکاسی ہے :
پہلے کبھی محفل جمتی تھی، محفل میں کہیں تم ہوتے تھے
اب کچھ بھی نہیں یادوں کے سوا، بس میں ہوں مری تنہائی ہے
آپ ویرانی اور اپنی مٹی سے بچھڑے فرد کو اپنی غزلوں کا ہیروں بناتے ہیں، آپ تنہائی اور وحشت و جنوں کو حسن و عشق کے رنگ میں رنگ کر غزل کی آبیاری کرتے ہیں، روز بروز بدلتی دنیا، ہر لمحہ بدلتا منظر نامہ اور اس تبدیلی کا احساس آپ کو بخوبی ہے آپ کہتے ہیں :
الجھتے جا رہے ہیں جستجو کے پر مسلسل
زمین تا آسمان کتنے مسائل ہو گئے ہیں
آپ ایک ایسے فن کار ہیں جس کی جھولی میں دشت، دریا، سمندر، صحرا، ریت، آنسو، مسافر، سفر، ہجرت جیسے استعارے ہیں، جن کی مدد سے آپ ایسی تصویر بناتے ہیں کہ ہر آنکھ اس کا شیدائی ہو جاتی ہے۔ آپ کی شاعری کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ آپ دیگر شعرا کی طرح فرد کی تنہائی کا رونا رو کر صرف آبدیدہ نہیں کرتے بلکہ آپ قافلے سے بچھڑے مسافر کو ہمت سفر دیتے ہیں اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، بالفاظ دیگر حوصلوں کے چراغ روشن کرتے ہیں، پر امید بناتے ہیں، جینے کا سلیقہ دیتے ہیں، آپ کہتے ہیں:
ہم قافلے سے بچھڑے ہوئے ہیں مگر نبیل
اک راستہ الگ سے نکالے ہوئے تو ہیں
……………………
مجھے اٹھا کے سمندر میں پھینکنے والو
یہ دیکھو اک جزیرہ یہاں ابھر چکا ہے
آپ سلگتے صحرا میں بھی گلاب کھلانے کی بات کرتے ہیں :
سلگتے دشت، ریت اور ببول تھے ہر ایک سو
نگر نگر، گلی گلی گلاب لکھ رہے تھے ہم
انسان کی تنہائی کو زائل کرنے میں دوستی کا اہم کردار ہوتا ہے، ہر انسان کے دوست ہوتے ہیں، آپ اس مقدس رشتے کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں :
زخمی ہوتی ہے روح تو کچھ غم نہیں ہمیں
ہم اپنے دوستوں کے حوالے ہوئے تو ہیں
عزیز نبیل کی شاعری میں اتنی وسعت اور گہرائی ہے کہ بندہ پڑھتا جائے اور غرق ہوتا جائے۔ آپ کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ محض 46 سال کی عمر میں آپ کی ادبی خدمات پر لاہور لیڈیز یونیورسٹی میں ایم فل کا مقالہ لکھا جا چکا ہے جس پر ڈگری بھی تفویض کی جا چکی ہے۔ ہم نے میر و غالب کا دور تو نہیں دیکھا مگر ہم عزیز نبیل کے دور میں جی رہے ہیں۔ آپ نہایت مخلص اور خاکسار شخصیت کے مالک ہیں، فیسبک بند ہونے کی خبر سن کر میں نے سر کا نمبر لینے کے لئے میسج کیا تھا، آپ نے نہایت ہی خوش اخلاقی اور مشفقانہ انداز میں مجھے نوازا ۔ رب رحیم سے دعا ہے کہ وہ عزیز نبیل سر کی عمر میں بے پناہ برکتیں عطا فرمائے، صحت و عافیت سے نوازے اور ہمیں ان سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی توفیق بخشے
✍️ وسیم رفیع