Urdu News

زبان کا تصور آپ کسی دوسری زبان کے بغیر نہیں کرسکتے: پروفیسرخواجہ اکرام

اسٹیج پرپروفیسرخواجہ محمد اکرام الدین، ڈاکٹر خالد علوی، پروفیسر خالد اشرف اور ڈاکٹر شفیع ایوب

اردو اکادمی، دہلی کا پانچ روزہ پروگرام”نئے پرانے چراغ“ کا چوتھا دن

اردو اکادمی، دہلی کی جانب سے دہلی کے بزرگ اور جواں عمر قلمکاروں کامقبول ترین پانچ روزہ ادبی اجتماع ”نئے پرانے چراغ“ کا سلسلہ جاری ہے۔ مورخہ 25جولائی کو ”تحقیقی وتنقیدی“کا پہلا اجلاس اکادمی کے قمررئیس سلورجوبلی آڈیٹوریم میں  منعقد ہوا۔ دہلی کی تینوں یونیورسٹیوں کے ریسرچ اسکالرز نے منتخب موضوعات پر تحقیقی و تنقیدی مقالات پیش کیے۔ ان موضوعات میں ”دکن کی قدیم اردو شاعری اور اہم شعراء“، ”غزل کے بدلتے رجحانات“، ”اردو تحقیق اور اہم محققین“، ”قدیم اردو نثر اور اہم تصانیف“، ”اردو صحافت:ماضی، حال اور مستقبل کے امکانات“ شامل ہیں۔

 اس اجلاس  کی مجلسِ صدارت میں پروفیسرخواجہ محمد اکرام الدین، ڈاکٹر خالد علوی اور پروفیسر خالد اشرف شامل تھیجب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹرشفیع ایوب نے انجام دیے۔اس اجلاس میں دہلی یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالردبیر سیدہ نے ”غزل کے بدلتے رجحانات“، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ریسرچ اسکالراقبال حسین نے ”اردو میں بین العلومی تحقیق“،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرامتیاز رومی نے ”برطانیہ میں اردو صحافت“،دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر محمد رضانے ”نیرمسعود بحیثیت محقق“،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ریسرچ اسکالرمحمد افتخار عالم نے ”پروفیسر حنیف نقوی کا ایک اہم تحقیقی کارنامہ“،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرتجمل حسین راحت نے ”دکن کی اردو شاعری اور اہم شعرا“،دہلی یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالراسما شکیل نے ”محمد زماں آزردہ کی دبیر شناسی“،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ریسرچ اسکالریوسف رضا نے ”ندا فاضلی کی غزلیہ شاعری“،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرنثار احمدنے ”اردو صحافت:ماضی، حال اور مستقبل کے امکانات“،دہلی یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالرعظمی رضوان نے ”تحقیق و تدوین کی مثالی شخصیت رشید حسن خان‘‘، دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرحسن رضا نے”غزل میں نئے رجحانات کا شاعر شجاع خاور‘‘، کے عنوانات سے اپنے مقالات پیش کیے۔

 پروفیسر خالد اشرف نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اسکالرز کی کوشش ہونی چاہئے کہ مقالہ لکھنے کے بعد اپنے اساتذہ سے ضرور چیک کرائیں تاکہ اس میں در آئی خامیوں کی اصلاح ہو جائے اور مقالہ دیکھنے کا کام نگراں ہی کرسکتے ہیں۔نظریہ اور غیر نظریہ کے بغیر بڑا فکشن اور شاعری میں ممکن نہیں ہے۔ وہ شاعربھی جو ترقی پسند نہیں تھے، انہوں نے بھی قومی مسائل اور فسادات پر شاعری کی ہے۔شمس الرحمن فاروقی شب خون کے ذریعہ ابہام اورتجرید کی تحریک چلاتے رہے، لیکن وہ جب ناول لکھتے ہیں ”کئی چاند تھے سرے آسماں“ تو اس میں یہ سب کچھ بھی نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جدیدیت کی تحریک ہمیں ایک ناول تک نہیں دے سکی۔

پروفیسرخواجہ محمد اکرام الدین نے کہاکہ میں سبھی طالب علموں کو مبارک باد دیتا ہوں، موضوعات کا انتخاب کافی اہم تھا،لیکن آنے والے پانچ برسوں میں سب کچھ تبدیل ہوچکا ہوگا۔آپ اسکالرز کوشش کریں کہ بہت زیادہ اقتباس سے بچیں اور ایسا اقتباس نہ دیں جس کا نام ادب میں معتبر نہیں ہے۔ تحقیق پر بہت اچھے مقالے پیش کیے گئے ہیں، مقالوں سے مجھے خوشی ہوئی کہ  طلبا کافی سنجیدہ ہوگئے ہیں۔ادب کیا ہے، ادب کسی خانے میں رکھی ہوئی چیز نہیں ہے،اس کا رشتہ زندگی کے کسی شعبے سے نہیں ہے، ادب کا رشتہ زندگی کے تمام شعبۂ حیات سے ہے تو ظاہر ہے ادب کا وجود ہی بین العلومیت سے ہوگا۔ چوں کہ علم اور زبان کا دائرہ اتنا وسیع ہوگیا ہے۔ زبان کا تصور آپ کسی دوسری زبان کے بغیر کر ہی نہیں سکتے ہیں۔خواجہ اکرام نے فرداً فرداً تمام مقالات پر گفتگو کی اور ریسرچ اسکالرز کی اصلاح فرمائی۔ظہرانے کے بعد ”تخلیقی اجلاس“ کا آغاز ہوا جس کی صدارت نعیمہ جعفری پاشا اور پروفیسرمظہر احمدنے کی جب کہ نظامت کے فرائض کشفی شمائل نے انجام دیے۔اس سیشن میں افسانہ/انشائیہ/ خاکہ وغیرہ پیش کیے گئے۔اس موقع پرڈاکٹر شمع افروز زیدی نے خاکہ ”نورجہاں ثروت“،پیش کیا جب کہ نعیمہ جعفری پاشا نے ”ساحرہ“، ایم رحمن نے ”وہی ایک لمحہ“، طہٰ نسیم نے ”گاؤں کا لکھ پتی“،ترنم جہاں شبنم نے ”کوئے یار میں“،شمیم اختر نے ”مجبوری“،وسیع الرحمن عثمانی نے ”مشکوک وضاحت“، نازیہ دانش نے”توہم پرستی“،مصطفی علی نے ”مُن مُن“ کے عنوان سے اپنے افسانے پیش کیے۔ پروفیسر مظہر احمدنے صدارتی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہ سیشن کچھ کچے اور پکے افسانوں کا سیشن تھا، کچھ کہانیوں میں کافی پختگی تھی۔نوجوانوں کو فی الحال مشق کی ضرورت ہے، مشق کرتے رہیں گے تو ان میں بھی پختگی آجائے گی۔

اجلاس میں نئے پرانے چراغ کی بھر پور نمائندگی ہوئی ہے۔ نعیمہ جعفری پاشانے اپنی صدارتی گفتگو میں کہاکہ نئے پرانے چراغ دہلی کے منظر نامے پر سب سے زیادہ مقبول ترین پروگرام ہے، جس کے لیے اردو اکادمی دہلی قابل مبارک باد ہے۔یہ خوشی کی بات ہے کہ اردو کے افسانوی ادب کا مستقبل تابندہ ہے اور خاطرخواہ اضافہ ہوتا رہے گا۔البتہ نئی نسل کو چاہئے کہ وہ اپنی تحریروں پر نظر ثانی ضرور کیا کریں تاکہ بہتر تحریریں سامنے آسکیں۔

 شرکا میں اسرار گاندھی،ڈاکٹر ریاض عمر،شعیب رضا فاطمی،معین شاداب وغیرہ کے علاوہ اکادمی کی گورننگ کونسل کے ممبران میں عبدالماجد نظامی، نفیس منصوری اور اسرار قریشی وغیرہ بھی شریک رہے۔ تحقیقی و تنقیدی اور تخلیقی اجلاس کے فوراً بعد ”محفل شعر وسخن“ کا آغاز ہوا۔

Recommended