Urdu News

ظفر کمالی کوساہتیہ اکادمی انعام ملنا اْس انعام کو عزت بخشنا ہے: عامر سبحانی

ظفر کمالی کوساہتیہ اکادمی انعام ملنا اْس انعام کو عزت بخشنا ہے: عامر سبحانی

ظفر کمالی کی ادبی کاوشیں سنجیدہ ہیں اور ان کو ساہتیہ اکادمی کے ذریعہ انعام دیا جانا خوداس انعام کو عزت بخشنا ہے۔ میں نے ظفر کمالی کو تقریباً گیارہ برس کی عمر سے دیکھا ہے اور اس وقت سے اب تک انھیں سنجیدگی سے لکھنے پڑھنے کے کام میں ہی لگے دیکھا ہے۔

مندرجہ بالا باتیں جناب عامر سبحانی، چیف سکریٹری، حکومتِ بہار نے بزمِ صدف کے ذریعہ منعقدہ ایک روزہ قومی سیمینارکے افتتاح کے دوران کہیں۔ یہ سے می نار معروف مزاح نگاراور محقق و ادیب پروفیسر ظفر کمالی کو ساہتیہ اکادمی انعام براے ادبِ اطفال ملنے کے اعزاز میں منعقد کیا گیا تھا۔

عامر سبحانی نے کہا ظفر کمالی کی نفاست، صلاحیت اور قابلیت سے مَیں بہت متاثّر رہا ہوں۔ وہ ادبی میدان میں بڑے بڑے معرکے سَر کرتے رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ظفر کمالی کو کئی جہتوں سے ادبی ایوارڈ مل سکتا تھا مگر ناقدری کے اس دور میں ادبِ اطفال کے حوالے سے بھی انھیں انعام دیا جانا خوشی کا باعث ہے۔

انھوں نے چالیس پینتالیس برس پہلے اپنے اسکول کے زمانے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اْن کے ہم درس تھے اور اس دور میں بھی ظفر کمالی کی اردو ، فارسی اور مذہبیات کا علم قابلِ رشک تھا۔

ظفر کمالی نے اپنے اْس علم اور ذوق پراپنی محنت و مشقت سے اضافہ ہی کیا۔وہ جہاں بھی رہے مطالعہ اور تصنیف و تالیف کی بنیادوں پر خود کو مزید مْستحکم کرتے رہے۔

عامر سبحانی نے یہ بھی بتایا کہ اسکول سے نکلنے کے بعد پھر ہم عظیم آباد میں ایک دوسرے سے ٹکرائے۔ الگ الگ مضمون میں ہم نے اپنی تعلیم جاری رکھی۔ تھوڑے تھوڑے وقفے سے جب بھی ظفر کمالی کی کوئی کتاب شایع ہوتی تو وہ میرے مطالعے کے لیے ضروربھیج دیتے۔

شاعری ، ظرافت ، تنقیدو تحقیق، بچّوں کا ادب اور ظریفانہ کاوشیں؛ ظفر کمالی نے بڑی محنت و مشقّت کے بعد ادبی دنیا میں پہچان قایم کی۔ آج وہ ہماری زبان کے مشہور اور قابلِ ذکر لکھنے والوں میں ہیں۔ مَیں اْنھیںساہتیہ اکادمی براے ادبِ اطفال کے ایوارڈ کے لیے خاص طور پر مبارک با د دیتا ہوں اور بزمِ صدف انٹرنیشنل کو ان کے اعتراف کے لیے شایانِ شان جشن کرنے کے لیے بالخصوص تہنیت پیش کرتا ہوں۔

سیمینار کے کلیدی خطبے کے لیے کولکاتا یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کے صدر اورمعروف نقّاد و محقّق ڈاکٹر امتیاز وحیدکو مدعو کیا گیا تھا۔ امتیاز وحید نے اپنے تفصیلی خطاب میں ترتیب کے ساتھ ظفر کمالی کی زندگی اور ان کے کاموں کی پرتیں کھولتے ہوئے سامعین کو ایک مکمل ظفر کمالی سے روبہ روکرانے میں کامیابی پائی۔

انھوں نے بتایا کہ ظفر کمالی کس طرح گھریلو تعلیم کے مراحل میں ہی ادب اور مذہب کی تعلیمات سے آراستہ ہو چکے تھے۔ اردو اور فارسی زبانوں سے ان کا گہرا لگاو ہو چکا تھا۔ کتابوں کو پڑھنا، سمجھنا اور اہلِ کمال کی صحبت میں بیٹھ کر اپنی تعلیم و تربیت کو استحکام بخشنا، ظفر کمالی کی ابتدائی زندگی کے خوش گوار مراحل رہے۔

ڈاکٹر امتیاز وحید نے ظفر کمالی کی ادبی شخصیت کے خاص خاص پہلوئوں پر تفصیلی تنقید و تجزیے سے بہت سارے مخفی گوشوں کو روشن کرنے میں کامیابی پائی۔ انھوں نے اْن کی تنقید و تحقیق سے متعلّق کْتب و مضامین کے بارے میں بتاتے ہوئے یہ بات کہی کہ ان کے یہاں صاف گوئی اور بے باکی کے ساتھ اصولِ تحقیق کی ایسی ٹھوس پاس داری ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر بڑے بڑوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔

ڈاکٹر امیتاز وحید نے بچّوں کے ادب کے حوالے سے ظفر کمالی کی متعدّد نظموں کے اقتباسات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اردو میں یہ کیوں کر دوسرے شعرا سے مختلف سرمایۂ ادب ہے۔

ظفر کمالی کی رباعیات پر توجّہ فرماتے ہوئے انھوں نے موجودہ عہد کے سب سے اہم رْباعی گو شاعر کے طور پر یاد کیا اور ان کے اس علمی سرمائے کی قدر شناسی کے لیے نقّادوں کو آگے آنے کا مشورہ دیا۔فنِّ رباعی میں ظفر کمالی نے جو اختراعات کیے ، اس پر بھی امتیاز وحید نے روشنی ڈالی۔

انھوں نے ظفر کمالی کی شخصی رباعیات کو بھی اپنی گفتگو کا موضوع بناتے ہوئے بتایا کہ یہاں ان کا نقّاد اور محقّق کبھی پسِ پْشت نہیں پڑتا اور وہ اپنی ان صلاحیتوں سے فائدہ اْٹھاتے ہوئے اِن رباعیات سے ایک نئے جہانِ معنی کی تخلیق کرتے ہیں۔

Recommended