Urdu News

ڈاکٹر شمس بدایونی کی کتاب پر پروفیسرمحمد سجاد کا عالمانہ تبصرہ

ڈاکٹر شمس بدایونی کی قابل مطالعہ کتاب

شمس بدایونی نہایت ہی قابل احترام شخص ہیں۔ ادبی تحقیق و تنقید میں ان کے کارنامے بہت اہم ہیں۔ ان کا پیشہ اپنا کاروبار ہے۔ ( اور ماشاءاللہ اس میں کامیاب بھی ہیں)۔ یعنی تدریسی یا تحقیقی جامعات کی ملازمت سے ان کا تعلق نہیں ہے۔ عموما، سیاست اور تاریخ نویسی کے تعلق سے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ دونوں عمل اس قدر سنجیدہ عمل ہیں، کہ، انہیں محض، انہیں پیشوں سے منسلک رہنے والوں پر بھروسہ کر کے نہ چھوڑ دیا جائے۔ کہا جا سکتا ہے کہ، ایسے خدمات اگر شمس بدایونی جیسے باصلاحیت لوگ انجام دیں تو پھر کیا خوب بات ہوگی!
شمس صاحب نے سر ضیاءالدین (1873-1947) کی نادر، اور کمیاب تحریروں اور تقریروں کو یکجا کر کے شائع کیا ہے۔ اور، 50 صفحات سے زائد پر مشتمل، پیش لفظ اور مقدمہ میں انہوں نے سر ضیاءالدین کا بہترین خاکہ لکھ ڈالا ہے۔ سر ضیاءالدین کے منتخب مضامین میں جس باریکی سے annotation کیا ہے، وہ نہایت ہی با صلاحیت محقق ہی کر سکتا ہے۔ شمس صاحب کو ہزاروں مبارک باد۔
شمس صاحب نے بجا فرمایا ہے کہ سر ضیاءالدین سے لوگوں کی واقفیت کو عام طور پر، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے نائب وائس چانسلر، اس عہد کی چند بد عنوانیوں، وائس چانسلر، اور مسلم لیگ اور انگریزی حکومت کی وفاداری، کونسل کی ممبری، وغیرہ، تک محدود کر دیا گیا ہے۔
سر ضیاءالدین کے تعلق سے خاک سار کی جانکاری میں مزید اضافہ تب ہوا جب ڈیوڈ لیلی ویلڈ کے مضمون (1975)، مشیرالحسن کے مضمون (1985) کے بعد نوید مسعود (آئ اے ایس، سبک دوش) کے طویل تحقیقی مضمون میں یہ وضاحت ملی کہ سر ضیاءالدین کی پرو وائس چانسلر ی کے دوران جو بد عنوانی کا معاملہ اٹھا تھا، اس میں ان کے خلاف، غالبا، disproprtionate حد تک، انہیں بدنام کیا گیا، اور شاید اسی وجہ سے بعد میں ان کے لئے ہمدردی کا ماحول بنا اور ان کے لئے وائس چانسلر بننا آسان ہو گیا۔
ان پہلوؤں پر متذکرہ تحقیقات کا خلاصہ کبھی اور شئیر کیا جائے گا۔ اور شمس صاحب کی اس کتاب کا بھی تبصرہ کبھی اور لکھا جائے گا۔ فی الحال تو محض یہ عرض کرنا ہے کہ، بھارت میں تعلیمی نظام کی سماجیاتی تاریخ کے مطالعہ کی غرض و نسبت سے سر ضیاءالدین کی تحریروں، تقریروں اور اقدام پر تاریخ نویسوں اور ماہرین تعلیم کی مخصوص توجہ کی ضرورت پے۔
اس کتاب کے آخری مضمون، بہ عنوان، رپورٹ میڈیکل کالج علی گڑھ، مئ 1945ء، (مشمولہ، جوبلی علی گڑھ میڈیکل کالج نمبر) پر میری نظر پڑ گئ۔
اس میں غیر منقسم ملک کے مختلف خطوں اور علاقوں سے، میڈیکل کالج قائم کرنے کے لئے، چندہ وصولی کی تفصیلات درج ہیں۔ کلکتہ سے سب سے زیادہ حوصلہ افزا خبر موصول ہوئ تھی۔
معروف تاریخ داں، خلیق احمد نظامی کی کتاب سے یہ جانکاری ملتی ہے کہ اکتوبر 1945ء میں دربھنگہ مہاراج کامیشور سنگھ نے بھی اس کے لئے 50 ہزار روپئے کا چندہ دیا تھا۔
مئ 1945 کے سر ضیاءالدین کے اس مضمون کا ایک جملہ ہے:
” وہ تمام حضرات جو پانچ ہزار روپیہ یا اس سے زیادہ کی رقم عنایت فرمائیں گے ان کے اسمائے گرامی سے منسوب لکچر روم اور دس ہزار یا اس سے زائد کے عطیات دینے والے حضرات کے نام سے لیبارٹریز (عمل گاہیں) تعمیر کی جائیں گی۔ جو حضرات پچیس ہزار یا اس سے زیادہ کی رقم عنایت فرمائیں گے، اسپتال کا ایک وارڈ ان کے نام سے قائم کیا جائے گا” (شمس بدایونی، مرتب، صفحہ 349)۔
دربھنگہ مہاراج رامیشور سنگھ نے جون 1912ء میں بیس ہزار روپئے کا چندہ دیا تھا۔ وہ علیحدہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ سر ضیاءالدین کے مذکورہ مضمون میں جو وعدہ کیا گیا ہے، اس کی روشنی میں دربھنگہ مہاراج کامیشور سنگھ کے پچاس ہزار روپئے کے عوض میں اسپتال کے کس وارڈ کا نام ان سے منسوب کیا گیا؟
سوشل میڈیا پر یہ سوال پہلے بھی اٹھایا گیا۔ دیگر کوششیں بھی کی گئیں ہیں۔ آگے آگے دیکھتے ہیں، اور کیا کیا ہوتا ہے۔ فی الحال، صرف متعصب حضرات کی نشان دہی کا کام جاری رکھا گیا ہے۔ متعصب حضرات کو متنبہہ کیا جاتا ہے کہ اعلی حکام کو گمراہ کرنے کی قبیح حرکت سے باز آ جائیں۔
اس اہم کتاب کا مفصل تبصرہ، بلکہ، تعارف، جلد ہی پیش کیا جائے گا۔
فی الحال یہ عرض ہے کہ یہ کتاب ضرور پڑھی جانی چاہئے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبہء تاریخ اور شعبہء تعلیم کے وہ محققین جو بغیر کسی اہم اور باوقار اشاعت کے منصب اور ترقی پا چکے ہیں، وہ لوگ خصوصی توجہ دیں، تو ان کا، اور ادارے کا، زیادہ بھلا ہو جائے گا۔

Recommended