Urdu News

جاوید انصاری کا علمی، تاریخی اور ادبی سفر

پروفیسر شریف حسین قاسمی

کتاب کا نام: تاریخ زرنگار برہان پور

مؤلف       : جاوید انصاری

مبصر       : پروفیسر شریف حسین قاسمی

صفحات    : 504

قیمت       : 480 روپیے

ملنے کا پتہ: دارالسرور ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی برہان پور

رابطہ        : 9754242468

تاریخ زرنگار برہان پور

ہندوستان میں مستند و معتبر تاریخ نگاری کا دور یہاں فارسی زبان، علماء، فضلا، ادباء، اور مؤرخین کے رچ بس جانے کے فوراً بعد ہی شروع ہوگیا تھا۔ چنانچہ ہندوستان کی باقاعدہ تاریخ کی پہلی کتاب ’تاج المآثر‘ ہے۔ جس کے مصنف حسن نظامی ہیں۔ تاج المآثر میں ہندوستان کے پہلے ترک حکمراں سلطان قطب الدین ایبک کے دور کی مکمل تاریخ بیان کی گئی ہے۔ یہ کتاب ۱۲۱۷ء میں سلطان التمش کے لاہور پر عارضی قبضہ کے بیان کے بعد اختتام پذیر ہوجاتی ہے۔

فارسی زبان میں ہندوستان کی تاریخ لکھنے کے سلسلے میں تاج المآثر ایسی مبارک، مستحسن اور بابرکت ثابت ہوئی کہ اس کے بعد درجنوں تاریخ کی کتابیں یہاں آخری مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفر کے دور حکومت کے ۱۸۵۷ء میں خاتمے تک فارسی میں لکھی جاتی رہیں۔ تاریخ کی ان کتابوں میں قرونِ وسطیٰ میں ہماری سیاسی اور ایک حد تک سماجی تاریخ کے تمام ہی پہلوئوں کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کردیا گیا ہے۔

فارسی میں لکھی جانے والی تاریخ کی یہ کتابیں عمومی بھی ہیں اور خصوصی بھی۔ یعنی تمام ہندوستان کی یا کسی ایک حکمراں کی یا پھر کسی خاص علاقے کی تاریخ ان کتابوں میں مرقوم ہے۔ منہاج سراج جوزجانی کی طبقاتِ ناصری، ضیاء الدین برنی کی تاریخ فیروز شاہی، واقعات مشتاقی، تاریخ دائودی، مرأتِ سکندری مؤلفہ سکندر ابن محمد عرف منجھو ابن اکبر ،پھر تیموری دور کی اکبرنامہ، جہانگیر نامہ، شاہجہاں نامہ، مآثر عالمگیری وغیرہ وہ چند تواریخ ہیں جو اپنے مشتملات و مواد کے لحاظ سے نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔

قرونِ وسطیٰ کے ہندوستان کے تاریخی و سماجی خدوخال انہی کتابوں میں مرتسم ہیں۔ فارسی میں انہی تاریخ کی کتابوں کی تقلید و پیروی میں اٹھارویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں اردو میں تاریخ نویسی کی روایت کا آغاز ہوا۔ رستم علی بجنوری نے اپنی کتاب ’قصہ و احوال روہیلہ‘ لکھ کراردو میں تاریخ نویسی کا آغاز کیا۔

یہ اٹھارویں صدی عیسوی میں لکھی گئی تھی۔ اس کے بعد سر سید اور شبلی نعمانی کی تاریخ پر مختلف اہم کتابیں، علامہ شبلی کے مایہ ناز شاگرد سید سلیمان ندوی اور پھر ان کے شاگرد سید صباح الدین عبدالرحمٰن، اور اس کے بعد پروفیسر خلیق احمد نظامی، شیخ اکرام، حکیم محمد نجم الدین خاں رامپوری وہ مؤرخین ہیں جنہوں نے اردو میں تاریخ نویسی کی روایت کو آگے بڑھایا اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی۔

       شیخ عبدالقادر ابن عبدالرحمٰن متخلص بہ جاویدؔ اور معروف بہ جاوید انصاری مرحوم ایک شاعر اور کثیر التصانیف شخص تھے۔ آپ کی کتاب ’تاریخ زرنگار برہانپور‘ ۶۵۰؍ سالہ تاریخی و ادبی منظرنامہ میرے مطالعہ میں ہے۔ فارسی کی جن تواریخ کا اوپر ذکر کیا گیا ہے وہ عموماً دو حصوں میں منقسم ہیں۔

پہلے حصہ میں سیاسی تاریخ اور دوسری میں سماجی صورت حال یعنی علماء،شعراء، ادباء، حکماء اور دیگر صاحبان فنون کے احوال مرقوم ہیں۔ جاوید صاحب کی یہ کتاب بھی اسی روش پر لکھی گئی ہے۔ اور اس طرح یہ کتاب ہماری تاریخ نویسی کی روایت کا تسلسل ہے اور یہ بڑی اہم بات ہے۔

         فارسی کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اپنے ادبی کاموں کی تکمیل کے لئے خاص طور پر ہندوستان میں لکھی جانے والی فارسی تواریخ کا راقم نے وقتاً فوقتاً مطالعہ کیا ہے۔ برہان پور قرونِ وسطیٰ میں ہمارے علمی و ادبی منظرنامہ کا ایک جزولاینفک ہے۔

عبدالرحیم خان خاناں کے یہاں تیس بتیس سالہ قیام نےاس شہر کو تمام فارسی دنیا میں معروف کر دیا ہے۔ مآثر رحیمی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس دور میں فارسی کے علماء، شعراء، ادباء اور حتیٰ کہ عرفاء کی قبلہ گاہ رہا ہے۔

         برہان پور کی ابھی تک کوئی مکمل سیاسی و سماجی تاریخ فارسی یا اردومیںمعرض وجو د میں نہیں آئی تھی۔ جاوید صاحب کی ’تاریخ زرنگار برہانپور‘ نے اس کمی کو بڑی حد تک دور کر دیا ہے۔ راقم یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ تاریخی وادبی مواد فراہم کرنے میں مصنف نے مقدور بھر کوشش کی ہے، اور اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں۔

کتاب کے مطالعہ سے بہ آسانی یہ محسوس ہوتا ہے کہ جاوید صاحب کی نظر میں برہان پور کی سیاسی تاریخ لکھنے سے زیادہ یہ پہلو اہم تر تھاکہ وہ اپنے وطن کی سماجی، ادبی، علمی و عرفانی تاریخ کو جس قدر ہوسکے نسبتاً زیادہ تفصیل سے پیش کریں۔

        کتاب میں اہل نظر کے چند تبصرے بھی شامل ہیں جن سے اس کتاب کے محاسن و عیوب پر روشنی پڑتی ہے۔ معائب سے مراد وہ کمیاں ہیں جو تمام متعلقہ ماخذ کے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے کتاب میں در آئی ہیں۔ خود جاوید صاحب نے بھی اپنے چند ماخذ میں واقع فروگذاشتوں کی طرف اشارہ کیا ہے، اور ان کی مستند صورت حال بیان کی ہے ۔

یہی ہوتا رہا ہے۔ اور تحقیق کا اصل مقصد و منہاج بھی یہی ہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ جو جاری رہتا ہے۔ مجھے بہر حال تعجب ہوتا ہے کہ باقاعدہ برہان پور میں ایسے عظیم کتب خانے کے موجود نہ ہونے کے باوجود جہاں ضروری مواد دستیاب نہ ہو، وہاں ۷۵ ؍کتابیں قدیم و جدید ماخذ کو فراہم کرنا اور ان سے استفادہ کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔

مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ مصنف نے اگر اپنی پوری علمی زندگی برہان پور میں بسر نہ کی ہوتی اور وہ اس تاریخی شہر کے چپہ چپہ سے واقف نہ ہوتے، ان سے انہیں دلی لگائو نہ ہوتا تو اس دلچسپ اور اہم کتاب کا وجود میں آنا مشکل ہوتا۔ تاریخ و ادب کے طالب علم کے لئے یہ کتاب ایک ناقابل فراموش کاوش ہے۔ جس میں برہانپور کی سیاسی، علمی و ادبی تاریخ اپنے تمام تر پہلوئوں کے ساتھ مبسوط طور پر جلوہ گر ہے۔

قلعے، مزارات، مقابر، حمام ، نہریں، باغات، عبادت گاہیں ان پر کتبے، دیگر اسناد، رجال کے تراجم وغیرہ نے کتاب کو استناد اور اعتبار بخش دیا ہے۔ مصنف نے خود اپنے عصر کی جو سیاسی و سماجی روداد کتاب میں درج کی ہے وہ بھی اس کا ایک امتیاز ہے۔ اور اس بات کا ثبوت ہے کہ برہان پور کو ہمہ جہت ترقی کے راستے پر گامزن کرنے اور اسے سنوارنے میں برہان پور کے باشندوں نے بلالحاظ مذہب و ملت گراں قدر کوششیں کی ہیں،اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کی قابل قدر مثال پیش کی ہے۔

        امید ہے کہ اپنی نوعیت کی یہ پہلی کاوش ’تاریخ زرنگار برہان پور‘ تاریخ و علم دوست حضرات کی توجہ کا مرکز بنے گی اور اس کام کو آگے بڑھانے کے لئے خود برہان پور ہی سے صاحبانِ ذوق آگے آئیں گے اور اپنے وطن کی زرنگار تاریخ کو مکمل کرنے کے لئے ٹھوس قدم اٹھائیں گے۔

         میں ان سب حضرات کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس کتاب کو منظر عام پر لانے کے لئے پُرخلوص کوششیں کیں اور اس طرح نہ صرف جاوید صاحب کا نام روشن کیا بلکہ خود اپنی علم و تاریخ دوستی ووطنی محبت کا قابل قدر ثبوت فراہم کیا۔ یہ سب حضرات بھی اس کتاب کی طرح ان شاء اللہ علم و تاریخ کی دنیا میں یاد کئے جاتے رہیں گے۔

Recommended