اسلم آزاد شمسی
اسسٹینٹ ٹیچر +2 ہائی اسکول ہنوارہ گڈا جھارکھنڈ
جناب الحاج محمد علی حسین خاکی کا تعلق صوبہ جھارکھنڈ کے مشہور و معروف علمی و ادبی لحاظ سے زرخیز شہر ہزاریباغ سے تھا، ا ن کی پیدائش ہزاری باغ شہر کے ایک گاؤں بادم میں 1950 میں ہوئی تھی، شاعر مرحوم سے میری ملاقات کبھی نہیں ہو پائی ۔البتہ ان کی شاعری سے بہتر ڈھنگ سے آشنا ہونے کا شرف حاصل کر پایا ہو ں۔ شاعر موصوف ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور اور انہوں نے اردو زبان و ادب کے لئے نمایاں خدمات انجام دی ہیں ۔یوں تو الحاج علی حسین خاکی نے اردو ادب کے حوالے سے کئ صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن غزل کے حوالے سے ان کی شاعری قابل داد و تحسین ہے۔
ان کی ادبی زندگی کا آغاز تقریباً 1975 کے آس پاس شروع ہوئی تھی، کیونکہ خاکی صاحب پیشے سے ایک سرکاری ٹیچر تھے 1973 میں انہوں نے ملازمت جوائن کی اور انکی پہلی پوسٹنگ سی سی ایل سوندا مڈل اسکول (رامکڈھ) میں ہوئی تھی، ان دنوں بر صغیر کے معروف شاعر و ناقد ناوک جمزہ پوری کی پوسٹنگ بھی جھارکھنڈ کے رامگڑھ ضلع میں ہی تھی، الغرض خاکی صاحب کو ناوک حمزہ پوری کی صحبتیں میسر آئیں، اور ان ہی کے ایما سے انہوں نے شاعری کی دنیا میں قدم رکھا، بیسویں صدی کے آخر میں صوبہ جھارکھنڈ سے جن شعراء حضرات نے اردو شاعری کو بلندی اور نئ جہت بخشی ان میں سے شاعر موصوف کا نام بھی شامل فہرست ہے۔ ان کا شمار صوبہ جھارکھنڈ کے نمایاں شاعروں میں کیا جانا چاہیے۔شاعر موصوف کی چند غزل کے اشعار ملاحظہ فرمائیں:
یہ میری سوچ ہی اب مجھ سے خفا لگتی ہے
کہ میری ذات ہی اب مجھ سے جدا لگتی ہے
جل رہی ہے مگر پل بھر میں ہی بجھ جائے گی
یہ مری زندگی کاغز کی دیا لگتی ہے
بات گل ہی کی نہیں ہر کلی ہے پز مردہ
اب تو بدلی ہوئی گلشن کی ہوا لگتی ہے
بات انصاف کی کرتے ہو بہت ناداں ہو
اک صحرا میں یہ بلبل کی صدا لگتی ہے
خاکی صاحب کچھ اور غزلیہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
اب سوچ میں فرق نظریات میں کیوں ہے
اعمال میں تضاد خیالات میں کیوں ہے
اے منصفو، قاتل تو ہے آزاد شہر میں
مفلس کا لہو بند حوالات میں کیوں ہے
اوروں کی طرح میں نے بھی ہے جان لٹایا
مشکوک وطن میری ہی خدمات سے کیوں ہے
خاکی صاحب کی شاعری میں عصری شعور کی جھلکیاں واضح و نمایاں نظر آتی ہے، یقیناً ان کی تمام تر تحریریں خواہ وہ نظم ہو یا نثر اردو ادب کے لیے بیش بہا خدمات کا بہترین سرمایہ ہے اور جھارکھنڈ میں اردو ادب کے حوالے سے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہے،
یوں تو انہوں نے اردو ادب کی مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے ۔ان کی نثری تصانیف بھی نہایت فکر و استدلال اور اصلاح پر مبنی ہے ۔لیکن ان کی اصل شناخت شاعری ہے، انہوں نے عزل کے علاوہ حمد، نعت، منقبت، مرثیہ، سلام جیسے اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ہے ۔ان کی نعتیہ شاعری کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے کس قدر دیوانہ تھے۔انہوں نے نبی پاک تاجدار کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کئی بہترین نعتیہ نظمیں تخلیق کیں ہیں جس میں سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔
ذات خدا کے نور کا مظہر صلی اللہ علیہ وسلم
عبداللہ کے لاڈلے دلبر صلی اللہ علیہ وسلم
حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے
سلام کے لیے حاضر غلام ہو جائے
میں صرف دیکھ لوں اک بار صبح طیبہ کو
بلا سے پھر میری طیبہ میں شام ہو جائے
ہر خطا بخش دیا اللہ سے شکوہ نہ کیا
مصطفی نے کسی دشمن سے بھی بدلہ نہ لیا
یہ کائنات بنائے رسول ہے کہ نہیں
قدم قدم پہ عطائے رسول ہے کہ نہیں
یہ مہر ماہ منور ہے نور احمد سے
جہان نور ضیائے رسول ہے کہ نہیں
ایمان کی شمع دنیا میں سرکار جلانے والے ہیں
کافر کے بتوں کو کعبے سے آقا ہیں مٹانے والے ہیں
مذکورہ بالا اشعار پڑھنے کے بعد یقیناً آپ کو احساس اور کامل یقین ہوگا کہ ان کے اندر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں کس قدر دیوانگی تھی ۔اور کس قدر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرنے والے اور ان کے شیدائ تھے۔ان کی زیادہ تر نظموں اور زیادہ تر اشعارمیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور انکی مبارک زندگی اور کارنامے کا ذکر ہے۔ گویا کہ تمام تر شاعری نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کا احاطہ کرتی ہے ۔ساتھ ہی ان کے تمام تر اشعار کس قدر بہترین پیرائے میں لکھی گئی ہے ۔انکے کلام (حمد، نعت، منقبت، مرثیہ، سلام) یکجا کرکے کتابی شکل میں ان کے صاحبزادہ محمد آصف عزیر" نغمات خاکی "جلد ہی منظر عام پہ لا رہے ہیں،
علی حسین خاکی کے یہاں عشق حقیقی کی جھلک صاف دکھائی پڑتی ہے ۔مرحوم شاعر کا چند اشعار جو خواہشات سے لبریز ہے اور دعائیہ انداز میں تحریر کی گئی ہے ملاحظہ فرمائیں:
دل کرتا ہے کعبہ دیکھوں
پیاراصفا اور مروہ دیکھو
آنکھوں میں بھر لو گنبد خضری
آقا تیرا روضہ دیکھو
ان اشعار میں شاعر کی فریاد اور تڑپ کو صاف طور پر محسوس کی جا سکتی ہے کہ وہ کس قدر اپنے پیارے آقا کا روضۂ مبارک کو دیکھ لینے کے لئے متجسس ہیں۔
رب کریم نے ان کی نیک خواہشات اور لبریز تمناؤں کو پورا کیا اور انہوں نے حج جیسی عظیم عبادت کو پورا کیا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر مدینہ کی سیر و دیدار سے سرفراز ہوئے ۔
حج سے واپسی کے بعد انہوں نے جو اشعار کہے ہیں وہ ملاحظہ فرمائیں ۔
شہر مدینہ کی وہ ڈگر ذہن میں آج بھی تازہ ہے
پاک شہر کا پاک سفر ذہن میں آج بھی تازہ ہے
گنبد خضرا دیکھا تو مت پوچھئے میری حالت کو
اشک بھری وہ میری نظر ذہن میں آج بھی تازہ ہے
وقت کہاں پر لے آیا اے خاکی زیارت کو ترسوں
خاک مدینہ کا شام و سحر ذہن میں آج بھی تازہ ہے
مذکورہ بالا تمام تر اشعار یقیناً اعلیٰ درجے کی ہے جو انہیں ایک بہترین شاعر کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے ۔الحاج علی حسین نے اپنی شاعری کے لیے پہلے علی پھر حسین اور پھر بعد میں مستقل طور پر خاکی تخلص اختیار کر لیا ۔مرحوم کی شاعری اور مختلف تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک حقیقت پسند اور عشق حقیقی سے لبریز شاعر تھے ۔ان کے اندر اللہ اور ان کے حبیب سے جو عشق تھی وہ ان کی شاعری میں جا بجا نظر آتا ہے ۔شاعر مرحوم اردو ہندی اور فارسی زبان پر دسترس رکھتے تھے اور اسلامیات ان کا پسندیدہ موضوع تھا ۔واہ ایک حساس، فعال، متحرک اور بے حد سنجیدہ قسم کے انسان تھے ۔ان کی نثری تصانیف سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے معاشرے میں تعلیم کے تئیں بے حد سنجیدہ اور فکر مند تھے، انہوں نے تنظیم الفلاح نام سے ایک تنظیم قائم کی اور تاحیات سکریٹری کے عہدے پر فائز رہے اور مختلف معاشرتی اور فلاحی کام انجام دیتے رہے ۔وہ ایک انسان دوست اور انسانیت پسند شخص تھے. قوم و ملت اور اپنے معاشرے تئیں ان کی ہمدردی فکر مندی ،انسان دوستی اور محبت و اخوت کا جذبہ اور معاشرے کی اصلاح کی فکر سے ہر کوئی آشنا تھا۔
لمبے عرصے تک ان کے نثری مضامین مختلف اخبارات کی زینت بنتے رہے جس میں محض اصلاح کی فکر، مسلمانوں میں تعلیمی بیداری اور دیگر معاشرتی مسائل کا ذکر ہوتا تھا. گویا کہ شاعر ہونے ساتھ ساتھ معاشرتی زندگی کے جمالیاتی رشتوں کے بھی قدردان تھے ۔مذہبی اعتبار سے بھی بڑے مضبوط اور راسخ العقیدہ تھےجو انکی نظمیہ کلام میں بکثرت نظر آتا ہے ۔ان کی تحریر یہ ثابت کرتی ہے کہ ان کا ذہن و دل صفائی، حق گوئی و حق پسندی اور خلوص و بے ساختہ پن وغیرہ سے لبریز تھی جو ان کی شخصیت کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوئی تھی خاکی صاحب 26 جولائی 2020 کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے، اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ رب کریم ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ان کے لیے جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے۔
آمین یا رب العالمین