ہندوستان جی ٹوینٹی صدارت لیکچر سریز کے حصے کے طورپرانڈیا عرب کلچر سینٹر (آئی اے سی سی)جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ’ہندوستان کی جی ٹوینٹی صدارت اور عرب دنیا‘ کے موضوع پراکتیس مارچ دوہزار تئیس کو سینٹر کے کانفرنس روم میں ایک خصوصی توسیعی خطبے کا اہتمام کیا گیا۔یہ خطبہ سابق سفیر برائے جارڈن اور لیبیا جناب ایمب۔انل ترنگونایت نے دیا۔
عرب کلچر سینٹر کے اعزازی ڈائریکٹر پروفیسر ناصر رضا خان نے پروگرام کے مرکزی خیال کاتعارف پیش کرتے ہوئے ہوئے ممتاز مقرر ایمب ترنگونایت(سابق آئی ایف ایس)جو صرف جارڈن اور لیبیا کے سابق سفیر نہ تھے نیز ممتاز خطیب اور بسیار نویس قلم کار بھی تھے،کابھی تعارف پیش کیا۔ اہم اخبارات اور رسائل میں ہندوستان اور مغربی ایشیا کے درمیان تعلقات کے سلسلے میں مہمان مقرر کے کالم آئے دن شائع ہوتے رہتے ہیں۔
ایمب۔انل ترنگونایت نے ایک بہت ہی معلومات افزا اور فکر انگیز خطبہ پیش کیا۔انھو ں نے بتایا کہ جی ٹوینٹی صدارت میں ہندوستان کے لیے مختلف مواقع ہیں کہ وہ عالمی اہمیت کے ضروری مسائل میں اپنا تعاون دے۔جی ٹوینٹی کے مرکزی خیال ’واسودھاوی کٹمکم‘ یا ’ون ارتھ ون فیملی ون فیوچر‘ سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ایمب۔ ترائیگو نایت نے کہا کہ ہندوستان کا منصوبہ ہے کہ جی ٹوینٹی کی اراکین ممالک کی شمولیت پر توجہ مرکوز کرے۔
انھوں نے ان ایجنڈوں کے متعلق بتایا جن پر اپنی صدارت میں ہندوستان غورو خوض کرانا چاہتاہے جن میں سے کئی ایک خاص طورپر عرب ممالک سے منسلک ہیں۔ انھوں نے یہ نکتہ بھی اٹھایاکہ دنیا سرد جنگ کی صورت حال کی جانب بڑھ رہی ہے جس میں ہندوستان ترقی پزیر ممالک کے مسائل سے نمٹنے کے ساتھ تین ایف یعنی کھانا،کھاد اور ایندھن کو غیر سیاسی بناکر گلوبل ساؤتھ کو برحق قیادت کا دعوی کرسکتاہے۔
انھوں نے مزید کہ ہندوستان کو گلوبل ساؤتھ کی قیادت کے لیے عرب ممالک کے تعاون اور امداد کی ضرور ت ہوگی۔روس۔یوکرین جنگ اور کورونا بحران کے نتیجے کے طورپر پوردی دنیا اور خاص طورپر گلوبل ساؤتھ بہت متاثر ہوا ہے۔
ہندوستان اور عرب ممالک دونوں ہی ایندھن،خوراک اور کھاد کے بطور آلہ استعمال سمیت مستقبل کے چیلنجز اور معاصر کلیدی مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کررہے ہیں اور معاشی سطح پر بھی کام کررہے ہیں جس پر اس دوران گہرا اثرا پڑا ہے۔
سعودی عرب کی سال دوہزار بیس جی ٹوینٹی صدارت میں سے کئی اہم ترجیحات اور ان کے بعد کی ترجیحات کو ہندوستان کررہاہے کیوں کہ ہندوستان نے گلوبل اسکل میپنگ،کلائمیٹ جسٹس اور سب کے لیے صحت،ڈھانچوں کا ڈیجیٹیلائزیشن اور ان کا لچک دار ہوناا ور خواتین کی قیادت والی پائے دار ترقی وغیرہ جیسے نئے نئے میدان اور شعبوں کو ہندوستان نے متعارف کرایا ہے۔
ہندوستان اور عرب دنیا کے درمیان ایک زبردست قسم کی ہم آہنگی محسوس ہوتی ہے کہ کیوں کہ دونوں ہی اپنے بین الاقوامی ڈسکورس کے لیے اسٹریٹیجک خودمختاری کو اپنا نے کی فکر میں ہیں۔ دوسری سرد جنگ کے خطرات کے ساتھ دنیا ایک مرتبہ پھر بلاکوں میں تقسیم ہونے والی ہے اور اس صورت حال میں ہندوستان وسط ایشیا کے ساتھیوں کہیں اور مذاکرات اور سفارتی طریقوں سے امن کے لیے بین الاقوامی ڈسکورس کو کسی حد تک ایک تقدس دے سکتے ہیں۔
انھوں نے گلوبل اسکل میپنگ اور ملٹی لیٹیرل اداروں جیسے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن،یونائٹیڈ نیشنس،ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی تشکیل نوکے لیے ہندوستان کی امنگوں کی اہمیت کو آشکار کیا اور بتایاکہ دنیا کو جن سب سے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے انھیں چار ایچ کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے یعنی ہیلتھ،ہنگر،ہیبیٹیٹ اور ہائی ٹیک اور ہندوستان میں اس با ت کی صلاحیت ہے کہ وہ ان مسائل کو حل کر نے میں کلیدی رول ادا کرے۔
فکر انگیز خطبے کے بعد سوال وجواب کا سیشن ہوا جس میں طلبا نے اپنے سوالو ں کے اطمینان بخش جوابات پائے۔اس لیکچر سے طلبا کو متعلقہ موضوع پر اہم معلومات فراہم ہوئیں۔سینٹر کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر آفتاب احمد کے اظہار تشکر کے ساتھ پروگرام اختتام پذیر ہوا۔