Urdu News

ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام منعقدہ ’جشن ادب‘ اختتام پذیر

ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام منعقدہ ’جشن ادب‘ اختتام پذیر


ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام منعقدہ ’جشن ادب‘ اختتام پذیر

ترجمہ انعام یافتگان نے اپنے تخلیقی تجربات ساجھا کیے

نئی دہلی، 14 مارچ(انڈیا نیرٹیو)

ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام منعقدہ جشن ادب 2021 کے آخری دن آج ترجمہ انعام یافتگان نے ’مترجمین سے ملاقات‘ پروگرام میں اپنے تخلیقی تجربات شیئر کیے۔ پروگرام کی صدارت ساہتیہ اکادمی کے نائب صدر جناب مادھو کوشک نے کی۔سب سے پہلے آسامی میں انعام یافتہ نوکمار سندیکے نے اپنے خطبے میں کہا کہ سنسکرت تصنیف ’راج ترنگنی‘ کے کلاسک موضوع نے انھیں اس کا ترجمہ آسامی لوگوں کے بیچ لانے کے لیے حوصلہ بخشا۔ تپن بندوپادھیائے، جو کہ خود بنگلہ زبان کے معروف فکشن نگار ہیں، نے کہا کہ اچھا وقت گزارنے کے لیے وہ ترجمہ کرتے ہیں، لیکن بڑی سنجیدگی کے ساتھ۔

 ہندی میں انعام یافتہ آلوک گپت نے کہا کہ ہندوستان کی کثیرلسانی اور کثیرثقافتی ماحول ایک وردان ہے اور اس وراثت کا صحیح تعارف کرانا ہم مترجمین کا بڑا فرض ہے۔ کنڑ میں انعام یافتہ مترجم وِٹّل راوئ ٹی گایکواڈ نے کنڑ اور مراٹھی میں ترجمے کی پوری روایت کا تفصیلی ذکر کیا۔ کشمیری کے لیے انعام یافتہ رتن لال جوہر نے اپنے مترجم ہونے کا کریڈٹ ساہتیہ اکادمی کے ذریعہ وقت وقت پر منعقد کی جانے والی ترجمہ ورکشاپ کو دیا۔

کونکنی کے لیے انعام یافتہ مترجم جینتی نایک نے کہا کہ ’زندگی نامہ‘ ناول، مشہور ہندی ادیب کرشنا سوبتی جی کی ایک اہم اور انوکھی تصنیف ہے۔ اُس میں زندگی کا ہر پہلو موجود ہے۔ میتھلی کے انعام یافتہ کیدار کانن نے اپنے تقریر میں کہا کہ میتھلی میں بھی دیگر ہندستانی زبانوں کی طرح ادب تخلیق کرنے کی ایک لمبی روایت رہی ہے۔ نصیرالدین شاہ کی انگریزی سوانح عمری کے مراٹھی ترجمہ کے لیے انعام یافتہ سئی پرانجپے نے کہا کہ نصیر کی تحریروں میں جو تازگی اور سچائی تھی اس نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ جہاں دقّت پیش آئی، میں نے ان کے ساتھ غور و خوض کر اسے سمجھا اور درست کیا۔

 سنسکرت کے لیے انعام یافتہ پریم شنکر شرما نے بتایا کہ سائنس کا طالب علم ہوتے ہوئے بھی ان کی دلچسپی مذہب، ادب اور فلسفہ میں تھی، جو بعد میں سنسکرت پریم میں تبدیل ہوئی۔اردو کے لیے انعام یافتہ معروف مترجم اسلم مرزا نے کہا کہ ترجمہ قارئین کے لیے ہی نہیں بلکہ ادب تخلیق کرنے والوں کے لیے بھی نئے دروازے کھولتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اردو میرے لیے تخلیقی اظہار کی زبان ہے لیکن فارسی، ہندی، مراٹھی اور انگلش سے مجھے اتنا ہی پیار ہے اور اسی پیار نے مجھے ترجمہ کی طرف مائل کیا۔

اپنے صدارتی خطبے میں اکادمی کے نائب صدر مادھو کوشک نے کہا کہ مترجم مختلف قومی اور بین الاقوامی تہذیب و ثقافت کو ملانے کا کام کررہے ہیں اور آنے والی دہائی مترجمین کی دہائی ہوگی۔ مواصلاتی میڈیا اور تکنیک کی ترقی کی وجہ سے ترجمہ آنے والے وقت میں سب سے اہم مقام تو رکھے گا ہی بلکہ اسے بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی حاصل ہوگی۔آخر میں ساہتیہ اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر کے شری نواس راوئ نے سبھی کا شکریہ ادا کیا۔

Recommended