اردو زبان نے ہندوستانی زبانوں اور ادب و تہذیب کا دامن وسیع کیا ہے: شریش داملے
کہاوتیں اور محاورے معاشرے کی مشترکہ دولت ہیں: شمیم طارق
اردو میں کہاوت اور محاورہ ہندوستانی تہذیب کی نمائندہ ہے: پروفیسرمحمد کاظم
”اردو کہاوتوں اور محاوروں کا ہندوستانی پس منظر“ کے موضوع پر گوگٹے جوگلے کر کالج رتناگری میں یک روزہ قومی سمینار
رتناگری: قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی اور شعبہئ اردو، گوگٹے جوگلے کر کالج رتناگری کے باہمی اشتراک سے ”اردو کہاوتوں اور محاوروں کا ہندوستانی پس منظر“ کے عنوان پر رادھا بائی شیٹے سبھا گرہ، کالج کیمپس میں ایک روزہ قومی سمینار ۱۱ / دسمبر کو منعقد کیا گیا جس میں صبح ساڑھے دس بجے سے شام چھ بجے تک چار اجلاس بڑی کامیابی سے پایہئ تکمیل کو پہنچے۔ ڈاکٹر پی پی کلکرنی (پرنسپل، گوگٹے جوگلے کر کالج رتناگری) کی صدارت میں منعقدہ سمینار میں خطہئ کوکن کے اردو پروانوں کی بڑی تعداد آخری اجلاس تک محظوظ و مستفید ہوتی رہی۔
سمینار کا افتتاح مراٹھی روزنامہ سکال کے مدیر جناب شریش داملے نے کیا اور اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ اس سمینار کو تب کارآمد سمجھا جائے گا جب اس کے اثرات سماج پر مرتب ہوں۔ انھوں نے اس موضوع پر سمینار کے انعقاد پر خوشی کا بھی اظہار کیا۔انھوں نے کہا کہ زمین کا کوئی بھی خطہ ہو انسان جہاں بستا ہے اس کے جذبات یکساں ہوتے ہیں۔۔ انھوں نے کہا کہ زبان و ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے قوائدِ زبان کا لحاط بھی ضروری ہے۔ انگریزی زبان کے اثرات کی وجہ سے ہندوستانی زبانوں کو کئی چلینجزدر پیش ہیں۔ تاہم مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والا دیگر زبانوں سے بھی استفادہ کرے تو اس کے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ اردو زبان ہمیں مستفید کر رہی ہے اس کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ اردو زبان نے ہندوستانی زبانوں اور ادب و تہذیب کا دامن وسیع کیا ہے۔ انھوں نے کہا گوگٹے جوگلے کر کالج میں شعبہ اردو کے قیام کو ۵۷ / برس مکمل ہوگئے ہیں یہ اپنے آپ میں ایک تاریخی عمل ہے جس پر فخر و مسرت کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔
معروف نقاد و شاعر، محقق اور کالم نگار شمیم طارق نے کلیدی خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ محاورے اور کہاوتیں جب زبان میں شامل ہوجاتی ہیں تو ان کو استعمال کرتے ہوئے مذہب و ملت یا طبقے کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی۔ انھوں نے اس کی مثالیں بھی دیں اور لفظ و محاورہ کے فرق کے ساتھ محاورہ اور کہاوت کے مفہوم کو بھی واضح کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں آواز، حروف، الفاظ، محاورے اور کہاوتوں کی حقیقی نوعیت بیان کرتے ہوئے ان کے وجود میں آنے کی وجوہ بھی بیان کی۔ شمیم طارق نے گوگٹے جوگلے کر کالج کے شعبہئ اردو اور ڈاکٹر محمد دانش غنی کی کارکردگی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب یہاں کچھ نہیں ہوتا تھا تو ہر طرف سناٹا تھا مگر جب یہاں کام ہو رہا ہے تو کچھ داغدار کردار کے لوگ چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا گیا ہے ”سوپ تو سوپ چھلنیو بولے جس میں بہتر چھید“۔ گوگٹے جوگلے کر کالج اچھا کام کر رہا ہے تو اس کا بھی اچھا ہو رہا ہے اور اس کے ذریعہ دوسروں کا بھی۔ اسی کو کہتے ہیں ”کر بھلا تو ہو بھلا“۔ شمیم طارق نے ایک اہم نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ محاوروں اور کہاوتوں میں لفظوں کے معنی بدل جاتے ہیں۔ مثلاً کہاوت ہے ”کمائے دھوتی والا کھائے ٹوپی والا“۔ روزمرہ میں ٹوپی والا، ٹوپی پہننے یا ٹوپی بیچنے والے کو کہتے ہیں مگر یہاں ٹوپی والا سے مراد انگریز ہیں جو ہندوستان کی دولت پر قابض ہوگئے تھے۔
مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر محمد کاظم نے شرکت کی اور موضوع کی اہمیت کو تسلیم کیا اور ”اردو کہاوتوں اور محاوروں کا ہندوستانی پس منظر“ جیسے اہم موضوع پر سمینار کا انعقاد کیے جانے پر خوشی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کالج اور شعبہئ اردو کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ عالمی گلوبلائزیشن کے دور میں کہاوت اور محاورے کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے کیونکہ آج کے اس مصروف ترین دور میں مختصر طور پر بات کرنے کا رواج ہوگیا ہے۔ محاورے اور کہاوت دو یا تین الفاظ میں بڑی سی بڑی بات کہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہر کہاوت میں ایک پوری کہانی پوشیدہ ہوتی ہے اور محاورہ انسان کی فکر، سماج کا ذہن اور اپنے دور کی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے۔اس لیے اردو میں کہاوت اور محاورہ ہندوستانی تہذیب کی نمائندہ ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں بھی کہاوت اور محاورہ انسان کی ذاتی فکر اور اس کے کلاسیکی ادب کے مطالعہ کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ جو ادب کہاوت اور محاورے سے خالی ہوتا ہے اس کی عمر نہ صرف کم ہوتی ہے بلکہ ادبی معنویت سے بھی مبرہ ہوتا ہے اس لیے معیاری اور مقبول ادب کے لیے لازم ہے کہ کہاوتوں اور محاوروں سے پر ہوں۔
ڈاکٹر محمد دانش غنی صدر شعبہ اردو نے مہمانوں کا استقبال کیا، سمینار کی غرض و غائیت بیان کی اور نظامت کے فرائض بھی نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کئے۔ڈاکٹرسریندر ٹھاکور دیسائی (وائس پرنسپل، آرٹس فیکلٹی) نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔
اس سمینار میں ڈاکٹر شفیع ایوب (نئی دہلی)، ڈاکٹر قدسیہ ناصر (نئی دہلی)، ڈاکٹر عبداللہ امتیاز احمد (ممبئی)، ڈاکٹر تابش خان (ممبئی)، ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی (سدی پیٹ)، ڈاکٹر شیخ احرار احمد (ممبئی)، جناب پرویز احمد (کامٹی، ناگپور) اور کئی دوسرے شہروں سے اردو کے اہلِ قلم اور ریسرچ اسکالرس نے شرکت کی۔جناب شوکت قاضی(پاوس، رتناگری)، جناب دلدار پورکر (مدیر، ہفت روزہ کوکن کی آواز، مہاڈ)، پرویز سجاد اے آسی (ناٹے)، مولانا عظمت علی قاسمی (رتناگری)، محترمہ شاذیہ اشفاق نائیک (رتناگری) اور جناب اسلم داؤد شرگاؤنکر (رتناگری)خصوصی مہمانان کی حیثیت سے شریک تھے۔
اختتامی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالرحیم نشترؔ نے آج کے دن کو ایک یادگار لمحے سے تعبیر کیا۔ انھوں نے مقالہ نگاروں کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ زبان و ادب کے مختلف گوشوں کے ہندوستانی پس منظر کو اجاگر کرنا عہدِ حاضر کا شدید تقاضہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ خطہئ کوکن اردو زبان و ادب کی زرخیز زمین ہے۔ یہاں ماضی میں جو شہرہئ آفاق ہستیاں اٹھی تھیں نئی پود ان کے کارنامے اور خدمات فراموش نہیں کر سکتیں اور نئی پود بھی اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے پوری طرح سرگرم ہے۔ ڈاکٹر قدسیہ ناصر، ڈاکٹر عبداللہ امتیاز احمد اور ڈاکٹر تابش خان نے سمینار کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا اوراور کالج کے پرنسپل ڈاکٹر پی پی کلکرنی نے سمینار کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر محمد دانش غنی کے اظہارِ تشکر پر سمینار کا اختتام ہوا۔
سمینار کے آخر میں جناب عبدالرحیم نشترؔ کی صدارت میں ایک شعری نشست منعقد کی گئی اور انھوں نے اپنی صدارتی تقریر میں فرمایا کہ کوکن کی شعری فضا اور ادبی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کوکن کے شاعروں کو مستقبل کی آواز قرار دیا۔ شعری نشست کی صدارت کرتے ہوئے انھوں نے کوکن کے نوجوان شعراء کو ایسے مسافر سے تعبیر کیا جو اپنی منزل کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے۔اس مشاعرے میں جناب شمیم طارق ؔ، جناب صابر مجگانوی، جناب تاج الدین شاہد، جناب اقبال سالک، جناب منظر خیامی، جناب آزاد عباس چوگلے، جناب عباس میاں ثاقبؔ اور جناب نسیم کرلوی نے کلام سے نوازا۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر شفیع ایوب نے انجام دیے۔ رتناگری اور کوکن کے کئی دوسرے مقامات سے آئے ہوئے سامعین نے شریک ہو کر سمینار کی رونق بڑھائی۔ ڈاکٹر محمد دانش غنی کی محنت و صلاحیت کو بھی سبھی نے سراہا۔