اردو کے ممتاز نقاد پروفسر مولا بخش اسیر کا انتقال
علی گڑھ،22اپریل(انڈیا نیرٹیو)
اردو کے ممتاز نقاد اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں سینئر فیکلٹی ممبر، پروفیسر مولا بخش انصاری مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 59 سال تھی۔اے ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے ان کے افسوسناک انتقال پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ''پروفیسر مولا بخش ایک مخلص استاد تھے، وہ اپنے طلبا کے ساتھ علم بانٹنا پسند کرتے تھے۔ ان کا انتقال یونیورسٹی کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔''پروفیسر محمد علی جوہر (صدر، شعبہ اردو) نے کہا کہ ''پروفیسر مولا بخش کی تدریسی صلاحیتوں کا طلبہ نے خوب فائدہ اٹھایا اور سینئر استاذ کی حیثیت سے ان کی رہنمائی میں نوجوان اساتذہ نے زبردست علمی اور پیشہ ورانہ پیشرفت کی۔پروفیسر مولا بخش اردو کے ایک صاحب اسلوب ادیب تھے جو نثر، تنقید اور مشرقی شعریات کے میدان میں ادبی نظریات کے تجزیے اور تشریح کے لیے خاص طور پر جانے جاتے تھے۔ انہوں نے انڈرگریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ اور پی ایچ ڈی طلبا کو پڑھایا اور چار کتابیں تصنیف کیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے 26 سے زیادہ کتابوں کے ابواب کی تدوین کی، اور معروف تحقیقی جرائد میں متعدد مقالے شائع کیے، نامور مصنفین کے لیے ان کی کتابوں کا تعارف لکھا اور ہندی اور انگریزی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا۔پروفیسر مولا بخش دیگر موضوعات کے علاوہ اسٹائلسٹکس، تنقیدی مطالعات اور ثقافتی علوم پر چھ کتابوں پر کام کر رہے تھے۔ وہ باقاعدگی سے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ادبی پروگراموں میں ماہر کی حیثیت سے شامل ہوتے تھے۔
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
پروفیسر مولا بخش کی رحلت اردو تنقید کا ایک اور نقصان عظیم: پروفسیر ہاشمی
ابھی اردو والے عالمگیر شہرت رکھنے والے راہ سازو نظریہ ساز نقاد و محقق شمس الرحمن فاروقی اور ابھی دو دنوں قبل اسی طرح قد آور فکشن نگار اور بے لاگ مبصر مشرف عالم ذوقی اور اردو کے کئی دوسرے اصحاب علم و فن کے سانحۂ ارتحال پہ نوحہ خواں ہی تھے کہ آج پروفیسر مولا بخش کی رحلت کی خبر نے اس سوگواری کے ماحول کو اور بھی اندوہ گیز اور ماتم زدہ بنا دیا۔ جے پرکاش یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے صدر پروفیسر ارشد مسعود ہاشمی نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ پروفیسر مولا بخش نے بہت ہی کم مدت میں اردو تنقید کی نئی شاخوں میں اپنی علمیت و قابلیت کی مہر ثبت کر دی تھی۔ اسلوبیات پہ ان کی نئی کتابیں بھی منظر عام پر آنے والی تھیں۔ وہ اکثر فون پہ اپنی نئی کتابوں کے سلسلے میں گفتگو کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ جب یہ کتابیں شائع ہو جائیں گی تب لوگ دیکھیں گے کہ مغربی تنقید نے کس طرح ہندوستانی شعری روایات اور سنسکرت ماخذوں کو اپنا کر اپنی اپنی تھیوریاں پیش کی ہیں۔پروفسیر مولا بخش سے اس شعبہ اردو کا ربط بھی رہا ہے۔ وہ یہاں ایک کل ہند سیمینار کے موقع پر اور پھر وائیوا اور توسیعی خطبہ کے لیے تشریف لا چکے تھے۔ ان تمام مواقع پر شعبہ کے اساتذہ اور اسکالرز ہی نہیں دیگر شعبوں کے اساتذہ سے بھی وہ یوں گھل مل گئے تھے گویا سب ان کے ہی رفیق کار ہوں اور ان کے ہی طلبا و طالبات۔ پروفیسر مولا بخش بیتے کئی دنوں سے ہسپتال میں زیر علاج تھے اور زندگی و موت کی جنگ میں مبتلا۔ ان کی رحلت سے جے پرکاش یونیورسٹی کے شعبۂ اردو نے اپنا ایک مخلص کھو دیا ہے۔ اموات کے اس سلسلے نے اب اس لائق بھی نہ چھوڑا کہ ان نقصانات عظیم پہ صف ماتم بچھے۔ شعبہ کے استاد ڈاکٹر مظہر کبریا اور ریسرچ اسکالرز کے علاوہ سبکدوش اساتذہ کرام پروفیسر نبی احمد اور داکٹر عبدالمالک کے ساتھ ہی راجیندر کالج چھپرہ کے صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر علا ءالدین خان نے بھی اس ناقابل یقین اندوہناک سانحہ پہ تاسف کا اظہار کیا اور کہا کہ شعبے میں ان کی موجودگی کا ہر لمحہ آنکھوں کے سامنے گردش کر رہا ہے۔