Urdu News

نامور مؤرخ و فلسفی اور بابائے قوم مہاتما گاندھی کے پوتے پروفیسر راج موہن گاندھی نے سرسید اکیڈمی کے زیر اہتمام خصوصی خطبہ پیش کیا

نامور مؤرخ و فلسفی اور بابائے قوم مہاتما گاندھی کے پوتے پروفیسر راج موہن گاندھی نے سرسید اکیڈمی کے زیر اہتمام خصوصی خطبہ پیش کیا


نامور مؤرخ و فلسفی اور بابائے قوم مہاتما گاندھی کے پوتے پروفیسر راج موہن گاندھی نے سرسید اکیڈمی کے زیر اہتمام خصوصی خطبہ پیش کیا

علی گڑھ، 18مارچ (انڈیا نیرٹیو)

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صدی تقریبات کے تحت سرسید اکیڈمی کے زیر اہتمام آن لائن خطبہ پیش کرتے ہوئے نامور مؤرخ و فلسفی اور بابائے قوم مہاتما گاندھی کے پوتے پروفیسر راج موہن گاندھی (ریسرچ پروفیسر، اِلینوائے یونیورسٹی، امریکہ) نے کہا کہ مہاتما گاندھی نے ملک کی آزادی سے آگے بڑھ کر یہ خواب دیکھا تھا کہ ہر ہندوستانی اختلاف رائے کے لئے آزاد ہو اور کسی کے ساتھ کوئی زبردستی نہ کی جائے۔ آزادی سے دو ماہ قبل جون 1947 ء میں رام نام سے بے حد پیار کرنے والے گاندھی جی نے کہا تھا کہ”اگر کوئی شخص میرے پاس آئے اور یہ کہے کہ تم رام کا نام لوگے یا نہیں لوگے، کیا تمھیں یہ تلوار نہیں نظر آرہی ہے، تو میں کہوں گا کہ میں تلوار کی دھار پر رام کا نام نہیں لوں گا۔ میں اپنی جان کی قیمت پر بھی اپنی مذہبی آزادی کا دفاع کروں گا“۔ 

پروفیسر راج موہن گاندھی کے خطاب کا موضوع تھا: کیا تاریخ کا پہیہ انصاف کی طرف گھومتا ہے: چند تاثرات۔ خطبہ کی صدارت وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کی۔ پروفیسر راج موہن گاندھی نے دنیا کے مختلف خطوں میں ماضی اور حال میں پیش آنے والے سیاسی تشدد اور ہلاکتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی تحریک آزادی میں مہاتما گاندھی کی قربانیوں کے ساتھ ہمیں ہندوستانی شہریوں کے لئے سوچنے، بولنے اور اپنے ایمان و یقین کو برقرار رکھنے کی آزادی کے لئے بھی ان کی قربانی کو یاد رکھنا چاہئے۔ انھوں نے کہا ”اگست 1942 میں ’ہندوستان چھوڑو تحریک‘ کے گاندھی جی کے اعلان پر کثیر تعداد نے لبیک کہا۔ سوائے 13 لوگوں کے جنھوں نے اسمبلی میں ان کی قرارداد کی مخالفت کی۔ گاندھی جی نے ممبئی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ان کے اختلاف رائے کے حق کا احترام کیا اور کہا کہ جن تیرہ لوگوں نے قرارداد کی مخالفت کی ہے۔ میں انھیں مبارکباد دیتا ہوں۔ پروفیسر راج موہن گاندھی نے کہا کہ ممبئی میں فروری 1946 میں جب پرجوش محبان وطن نے ’جے ہند‘ کا نعرہ بلند کرنے کے لئے لوگوں پر زور ڈالا تو گاندھی جی نے اس کا علم ہوتے ہی زور زبردستی کرنے سے منع کیا۔ گاندھی جی نے کہا کہ کسی ایک شخص پر بھی اگر جے ہند یا کوئی دیگر نعرہ لگانے کے لئے دباؤ ڈالا گیا تو وہ سوراج کے تابوت میں ایک کیل ثابت ہوگا۔

 امریکی خانہ جنگی کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر گاندھی نے کہاکہ امریکہ میں انصاف کے لئے جدوجہد کرنے والے ایک عظیم جہدکار تھیوڈر پارکر نے انیسویں صدی میں میکسیکو کے ساتھ امریکہ کی لڑائی کی سخت مخالفت کی تھی۔ انھوں نے غلامی کے خاتمہ کا مطالبہ کیا اور کہا کہ میں دنیاوی اخلاقیات کو سمجھنے کا دعویٰ نہیں کرتا البتہ میرا ضمیر مجھ سے یہ کہتا ہے کہ تاریخ کا پہیہ انصاف کی طرف یقینا گھومتا ہے۔ پروفیسر گاندھی کے مطابق پارکر اپنے انداز میں یہ کہہ رہے تھے کہ خدا کے گھر دیر ہے، اندھیر نہیں۔ اسی تبصرہ کو تقریباً ایک صدی بعد ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے دوہرایا کہ آہستہ ہی سہی، اخلاقیات کی سوئی انصاف کے پاس آکر ہی رہتی ہے۔ نائیجیریا، لبنان اور افغانستان کی مثالیں پیش کرتے ہوئے پروفیسر گاندھی نے کہا کہ ان ملکوں میں لوگوں نے بہت ظلم و ستم سہا ہے اور بڑی ہلاکتیں دیکھی ہیں۔ سیاسی نظام ہو یا معیشت ہر شعبہ میں بدحالی، بدعنوانی اور مشکلات ہیں۔ لوگ اس صبح کا بے چینی اور کرب سے انتظار کررہے ہیں جب امن و سکون کی حکمرانی ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ لبنان کو 2013 میں فریڈم ہاؤس انسٹی ٹیوٹ نے جزوی طور سے آزاد ملک قرار دیا تھا۔ گزشتہ سال اگست میں بیروت میں بہت تباہ کن دھماکہ ہوا جس میں بہت سی جانیں ضائع ہوئیں۔

 سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر راج موہن گاندھی نے کہا ”میں نے دس سال کی عمر میں سرحدی گاندھی کو پہلی بار دیکھا تھا جب وہ دہلی میں میرے گھر میں اپنے بھائی کے ساتھ ٹھہرے تھے۔ مہاتما گاندھی کے بیٹے اور میرے والد دیوداس گاندھی 1930ء سے سرحدی گاندھی کو جانتے تھے اور وہ لاہور کے پاس گجرات میں جیل میں بھی ساتھ ساتھ رہے تھے“۔ پروفیسر راج موہن گاندھی نے کہاکہ ”1987 میں سرحدی گاندھی سے ممبئی کے راج بھون میں میر ی ملاقات ہوئی تھی۔ تب انھوں نے کہاتھا کہ قرآن کریم میں صبر کی بار بار تلقین کی گئی ہے اور صبر اور عدم تشدد دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے“۔ انھوں نے کہا کہ سرحدی گاندھی کی زندگی کا بڑا حصہ جیلوں میں گزرا۔ وہ ہندوستان کی تقسیم نہیں چاہتے تھے اور زندگی کے آخری دم تک وہ سبھی انسانوں کا احترام کرتے رہے۔ انھوں نے ہر مشکل گھڑی میں یہی کہاکہ جو خدا کو پسند ہے وہ مجھے پسند ہے۔ انھیں یقین تھا کہ ایک دن انصاف ضرور آئے گا۔

 پروفیسر راج موہن گاندھی نے کہاکہ گاندھی جی اظہار کی آزادی میں یقین رکھتے تھے اور انھیں ایسے گیت پسند تھے جو اس بات کی امید دلاتے تھے کہ تاریخ ایک دن انصاف کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ پروفیسر گاندھی نے کہا کہ گزشتہ ایک دو دہائی میں دنیا میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں۔ پہلے حریت، مساوات اور بھائی چارہ پر زور دیا جاتا تھا اور سماج و ملک کے لئے یہ نیک قدریں تھیں اور ملکوں کے دستور میں بھی یہ شامل تھا۔ تاہم اب کسی اور بات پر زور دیا جارہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اب اطاعت و وفاداری نئی ترجیح ہے اور اس کی کچھ مختلف تشریح کی جارہی ہے۔ اب ہم سے کہا جارہا ہے کہ ہم نیشنلزم کی پوجا کریں اور اس کی بھی ایک مخصوص تشریح کی جارہی ہے۔ لوگوں سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ تمھاری امریکیت کتنی اصلی ہے۔ تمھارا چینی یا مثال کے طور پر تمھارا ہندوستانی یا میانماری خون کتنا اصلی ہے؟

 پروفیسر گاندھی نے ہندوستانیت کی توضیح کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ ہندوستانی ہونا حقیقت میں کیا ہے؟ کیا کوئی الگ قسم کا خون ہے جو مجھے ہندوستانی بناتا ہے؟ کیا کوئی مخصوص ہندوستانی جِین یا رنگت ہے؟ کیا کوئی خاص مذہب یا زبان ہے مجھے ہندوستانی بناتا ہے؟ یہ سوالات اٹھاتے ہوئے پروفیسر راج موہن گاندھی نے مہاتما گاندھی کے نظریہ پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہاکہ گاندھی جی یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستانی لوگ ہندوستانی ہیں، اس لئے نہیں کہ ان کا مذہب ایک ہے یا ان کا خون ایک ہے، بلکہ وہ ہندوستانی ہیں کیوں کہ وہ ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ ایک ہی پانی پیتے ہیں، وہ ایک ہی ہوا میں سانس لیتے ہیں، وہ ایک ہی مٹی سے پیدا ہونے والی غذا کھاتے ہیں اور ایک ہی جگہ پر ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ حالیہ امریکی انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر گاندھی نے کہا کہ امریکہ کو یہاں کے منتخب صدر باندھ کر نہیں رکھتے ہیں، نہ ہی سپریم کورٹ اور امریکی کانگریس یا سیاسی پارٹیاں اور یہاں کا دستور امریکہ کو ’زندہ‘ رکھتے ہیں۔ بلکہ امریکی شہری اس ملک کو زندہ و تابندہ رکھتے ہیں اور اپنی رہنماؤں کو قابو میں رکھتے ہیں۔اس سلسلہ میں پروفیسر گاندھی نے متعدد مثالیں بھی پیش کیں۔

عصر حاضر میں سرسید احمد خان کی معنویت کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر راج موہن گاندھی نے کہا کہ یہ اے ایم یو کا امتیاز ہے کہ یہاں دنیا کے مختلف خطوں سے طلبہ آتے ہیں۔ سرسید کا آج سے تقریباً 123 قبل انتقال ہوگیا مگر وہ صرف علی گڑھ میں نہیں بلکہ اس کرہ ارض کے مختلف ملکوں میں بھی زندہ ہیں، جہاں اے ایم یو سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات مقیم ہیں۔ ایک دوسرے کے درد کا خیال رکھنے، گفت و شنید کرنے اور اپنے ذہن و ضمیر سے بھی مکالمہ کرنے پر زور دیتے ہوئے پروفیسر راج موہن گاندھی نے کہا کہ سچے اور ایماندارانہ مکالمہ سے تاریخ کے پہیے کا براہ راست رشتہ ہے۔

 اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے خطبہ کی صدارت کرتے ہوئے کہاکہ تعلیم اور انصاف کسی بھی تہذیب میں امن و خوشحالی اور ترقی کے لئے ناگزیر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ خدا بھی یہ کہتا ہے کہ ہم اپنے معاملات میں نیک اور ایماندار رہیں۔ وائس چانسلر نے کہا کہ ہم اپنی مادر علمی کے بانی سرسید احمد خاں کے ممنون ہیں جنھوں نے جدید سائنسی تعلیم کی وکالت کی۔ انھوں نے پروفیسر راج موہن گاندھی کو ان کے شاندار خطبہ کے لئے مبارکباد پیش کی۔ پروفیسر منصور نے مزید کہا کہ یوروپی یونین ایک اچھا ماڈل ثابت ہوئی ہے جہاں دو عظیم جنگوں کے بعد آج امن و خوشحالی کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

 اس سے قبل سرسید اکیڈمی کے ڈائرکٹر پروفیسر علی محمد نقوی نے مہمان مقرر کا خیرمقدم کرتے ہوئے موضوع کے مختلف جہات پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ ہندو مت ہو یا عیسائیت یا پھر اسلام، سبھی میں انصاف کی سربلندی کی بات کی گئی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کی سرپرستی میں سرسید اکیڈمی میں نئی جان پیدا ہوئی ہے اور صدی تقریبات کے تحت اکیڈمی نے کامیابی کے ساتھ متعدد خطبات کا اہتمام کیا ہے۔ سرسید اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائرکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے آخر میں شکریہ کے کلمات ادا کئے۔ ڈاکٹر سید حسین حیدر نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔ اس موقع پر پرو وائس چانسلر پروفیسر ظہیر الدین اور دیگر اہم شخصیات موجود تھیں۔

Recommended