بوالبرکات شاذ قاسمی تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن جگییراہاں بتیا
شخصیت (پرسنالٹی) ایک لاطینی زبان کا لفظ ہے جو(پرسونا) سے بنا ہے جس کا مطلب ہے رومن ہیرو کے ملبوسات میں ماسک جس کو لوگ حیرت اور خوشی سے دیکھتے ہیں اب پرسنالٹی کا مطلب ہم یوں بیان کر سکتے ہیں کہ پرسنالٹی کسی شخص کے ظاہری و باطنی وہ اوصاف جس کو دیکھ کر لوگ متاثر ہوں اور اس کی طرف متوجہ ہوں ۔
شخصیت کو سنوارنا سجانا اور اسے پرکشش بنانا ہر ذی شعور انسان کے لیے ضروری ہوتا ہے انسان کی جسمانی ڈیل ڈول، فکری انکشافات، ذہنی افتراء اور قائدانہ رول یہ سب اگر موضوع و مناسب طور پر کسی شخص میں موجود ہوں تو اس کی شخصیت پرکشش ہوتی ہے اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے ایک بہترین شخصیت کے اوصاف کسی بھی شخص کے اندر پوشیدہ ہوتے ہیں اور ایک مکمل اکائی کی طرح کام کرتے ہیں ہر آن رواں دواں رہتے ہیں یہ موروثی بھی ہوتے ہیں اور ماحول سے مل کر بھی بنتے ہیں شخصیت کا ماحول سے لگاتار جوڑ اور لگاو ہے جیسا ماحول ہوگا اس میں پروان چڑھنے والی شخصیت بھی اسی طرح کی ہوگی۔ شخصیت (personality )کے متعلق ماہرین نفسیات کی کچھ قابل قدر آراء ہیں جو قابل غور ہیں۔
* الفریڈ ایلڈر(1870-1973) ایلڈر سوچتے ہیں کہ ہر ایک شخص ایک انوکھی زندگی کی مہارتوں کو فروغ دیتا ہے جس میں بچپن کی تمام خواہشات و لوازمات کی تکمیل ضروری ہوتی ہے اس لئے اگر پرکشش شخصیت چاہتے ہیں تو بچوں کی تمام خواہشات کو پورا کرنا ضروری ہے ایلڈر کا یہ بھی ماننا ہے کہ بچپن کا عدم حصول شروع سے منفی فکر پیدا کرنے میں اہم طور پر ذمہ دار ہے منفی رجحان کا پیداوار عدم اکمالیت کو جنم دیتا ہے اس سے زندگی میں تشنگی باقی رہتی ہے یہ ترقی کے اعلی معیاروں کے حصول کو روکتا ہے اس لیے پرکشش اور جاذب شخصیت کے لیے ضروری ہے کہ کسی کو بھی بچپن کی خوشی سے محروم نہیں کیا جائے ۔
*کارل جنگ (1875-1961)جنگ کی تحقیق یہ ہے کہ شخصیت ظاہری و باطنی ہر دو اعتبار سے پرکشش ہوتی ہے ظاہر و باطن دونوں کی استواری سے ایک بہترین شخصیت پروان چڑھتی ہے یہ ہماری زبان و اطوار سے عیاں ہوتی ہے باطن کی جاذبیت کے لیے جنگ نے سنجیدگی،فکر وخیال خوابیدہ صلاحیت اور احساسات کو ضروری قرار دیا ہے۔کسی بھی شخص کی شخصیت کا تصور خود اس کی ذات کے بارے میں تصور پر منحصر ہے۔ وہ خود کو کس قسم کا یا کس طرح دیکھنا گوارا کرتا ہے ؟اس کی خود کے بارے میں کیا رائے ہے؟ بچے کے اپنے بارے میں اپنی سوچ کو ہی “خود تصور(سیلف کانسیپٹ)”کہتے ہیں جس ماحول میں وہ رہتا ہے اور جس ماحول میں اس کی دلچسپی زیادہ ہے یہی اس کا “خود” کا ماحول اور تصور ہے لہذا ایک پرکشش شخصیت کا مالک بننے کے لیے مناسب و موزوں دائروں حلقہ احباب، پیشہ ، تعلیم اور افراد کا انتخاب کرنا چاہیے کیونکہ ماحول اور خود کی سوچ سے تحریک ملتی ہے اچھے ماحول اور اچھی سونچ اچھائی کے جذبات کو پیدا کرتے ہیں اچھے کام پر ابھارتے ہیں جبکہ بری سونچ ،برے خیالات ، برے احباب اور گندے ماحول برائی کی طرف انسان کو دھکیلتے ہیں یہی سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اچھے اسکول اور اچھے اساتذہ اپنے بچوں میں بہترین شخصیت کے نقوش چھوڑتے ہیں اس کے لیے خود اساتذہ اور اہل خانہ کی شخصیت پرکشش ہونا ضروری ہے اسی طرح یہ بات بھی ضروری ہے کہ اسکول کا جغرافیائی ماحول بھی دلکش ہو اساتذہ اور طلبہ کے اندر ذات پات زبان و علاقہ اور نسل پرستی کا عیب بالکل نہ پایا جاتا ہو اساتذہ اپنے طلبہ کو عزت و اکرام کی نظر سے دیکھتے ہوں ان کے ساتھ شفقت و محبت کا معاملہ کرتے ہوں شخصیت کو بہترین بنانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اساتذہ اور طلبہ دونوں نصابی مواد پر اکتفا نہ کریں اور اپنی معلومات کو فروغ دینے کے لیے خارجی مطالعہ کریں اور خارجی مطالعہ کی روشنی میں آپس میں تبادلہ خیال بھی کریں وقفہ وقفہ سے مقابلہ کا انعقاد، طلبہ کی ہمت افزائی اور ان کا مخلصانہ تعاون طلباء میں اچھی شخصیت کے اقدار کو فروغ دیتا ہے اس سے بچوں میں انفرادی قابلیت پیدا ہوگی مگر ان سب کے لیے سب سے زیادہ اہم رول ایک ٹیچر کی ٹیچنگ کی مہارت کا ہے جو مشق و تمرین کے بغیر ناممکن ہے ان سب بہترین اور جاذب نظر اوصاف کو ایک ماہر قابل صلاحیت مند اور مثالی شخصیت کا مالک ٹیچر ہی بچوں میں پروان چڑھا سکتا ہے اسکول اور گھر میں بچوں کی ٹیچنگ کے لیے ٹیچر کے انتخاب میں خوب غور فکر کرنا چاہیے کیونکہ تھوڑی سی غلطی اور غلط فہمی بچوں کی شخصیت پر منفی اثر ڈال سکتی ہے
ماہر اساتذہ اپنے بچوں میں بہترین واعلی اخلاقی اقدا ر عطا کر کے ان میں شخصیت کو فروغ دے سکتے ہیں اس کے لیے مندرجہ ذیل اہم نکات کو بروئے کار لانا ضروری ہوگا ۔
*توجہ دینا۔ بچوں کی شخصیت کو فروغ دینے کے لیے سب سے بڑی اور ضروری چیز یہ ہے کہ ان پر خصوصی توجہ دی جائے توجہ دینے میں یہ بات خیال رہے کہ اگر بچے آپ سے سوال کریں یا کچھ آپ سے گفتگو کرنا چاہیں تو فوراً ان کی بات سنی جائےاگر ان کی طرف توجہ نہ دی جائے تو وہ یہ تصور قائم کرلیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بے توجہی برتی جارہی ہے
*ڈسپلن۔ بچوں کی شخصیت کو فروغ دینے میں یہ بات بھی نہایت اہمیت رکھتی ہے کہ اساتذہ اور والدین بچوں کو عمدہ ڈسپلن عطا کرنے کے لیے خود کو بہترین ڈسپلن میں رکھیں اس لیے ضروری ہوگا کہ ٹیچر اور گارجین ایماندار، شفیق ،صاف دل، صاف گو، لچکدار، (بہت ہلکے ضابطوں کی پابندی نہیں کی جاتی اور سخت ضابطے نبھائیں نہیں جاتے )اصولوں کے پابند ہوں اس ڈسپلن کے قواعد کو بچوں کی ضرورت کے موافق ڈھالا جا سکتا ہے۔
*رول ماڈل۔ اساتذہ کو بچوں میں بہترین شخصیت کے اوصاف عطا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم بہترین شخصیت کے عمدہ نمونہ و مثال بن کر ان کو دکھائیں بچوں کے سامنے ایک استاد یا والدین کو کچھ بھی کرنے سے قبل اس کو یہ جاننا ہوگا کہ وہ کیا کر رہا ہے جو کر رہا ہے اس پر اس کوخود بھی یقین ہے یا نہیں ؟ وہ اپنے کاموں سے دلچسپی رکھتا ہے یا نہیں؟ اس سے ہنس مکھ اور خوش مزاج ہونا چاہیے ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ بچے کاموں سے متاثر ہوتے ہیں کیونکہ کام الفاظ سے زیادہ بولتے ہیں اساتذہ کو ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہیے اور یہ بات یاد رکھنے چاہئے کہ ہو سکتا ہے وہ تنہا ایک ایسی کتاب ہو جن کو بچے پڑھتے ہوں۔
*خوش مزاجی۔ ایک ٹیچر اور گارجین کو بچے کے ساتھ ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ بات کرنی چاہیے
*پیار و محبت۔ یہ عام کہاوت ہے کہ بچے سے پریم کرو وہ تم سے پریم کرے گا اس سے نفرت کرو وہ تم سے نفرت کرے گا چنانچہ بچوں سے ہمیشہ محبت اور شفقت کے ساتھ پیش انا چاہیے
*صبر و تحمل ۔ بچوں کی تربیت میں گھبرانا نہیں چاہیے چونکہ بچے چنچل نٹ کھٹ ہوتے ہیں ہمیشہ شرارت کرتے ہیں ہماری باتوں کو اتنی توجہ نہیں دیتے جتنی کہ ہم دیتے ہیں وجہ یہ ہے کہ وہ حالات سے نہیں گزرے ہیں ان کا تجربہ چھوٹا ہے اور ہم زندگی کے تجربات و حالات سے گزر چکے ہیں اس لیے ہم زیادہ سنجیدہ ہوتے ہیں بچے کسی کام کو لے کرجلدی سنجیدہ نہیں ہوتے ایسے موقع سے تربیت کے معاملے میں گھبراہٹ ہو سکتی ہے ایسے حالات میں ہمیں صبر سے کام لینا چاہیے
*انہیں اچھے کاموں پہ انعامات سے نوازا جانا چاہیے انعامات کبھی اشیا؛ گفٹ، تحفہ تحائف عمدہ کتابیں یا ان کی ضرورت کے سامان بھی ہو سکتے ہیں کبھی شاباش واہ واہ بہت خوب ماشاءاللہ جزاک اللہ جیسے عمدہ اور بہتر الفاظ بھی ہو سکتے ہیں
غرض کے بچوں کی تربیت میں اساتذہ کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے مذکورہ اہم نکات کو امپلیمنٹ کرکے بچوں کی شخصیت کو نکھارا اور سنوارا جاسکتا ہے۔