Urdu News

سرورالہدیٰ کی کتاب رفتگاں کا بامعنی سراغ ہے: پروفیسر انیس اشفاق

سرورالہدیٰ کی کتاب رفتگاں کا بامعنی سراغ ہے: پروفیسر انیس اشفاق

شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے زیرِ اہتمام ڈاکٹر سرورالہدیٰ کی کتاب ”رفتگاں کا سراغ“ پر مذاکرے کا انعقاد

ڈاکٹر سرورالہدیٰ کی کتاب نے میرے علم میں اضافہ کیا ہے۔ بہت سی باتیں جو حافظے سے محو ہوگئی تھیں، ان کی بازیافت ہوگئی۔ اس کتاب کا دائرہ وسیع ہے۔ اس میں ناقدین، شعرا، محققین اور فکشن نگار سب موجود ہیں۔ سرورالہدیٰ کی نثر میں شفافیت، ترسیلیت اور انتقال معنی کی صفات بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں۔ ان کی یہ کتاب رفتگاں کا بامعنی سراغ ہے۔ ان خیالات کا اظہار سابق صدر شعبہ اردو، لکھنوؤ یونیورسٹی اور موقر ادیب و شاعر پروفیسر انیس اشفاق نے شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے زیرِ اہتمام ڈاکٹر سرورالہدیٰ کی کتاب ”رفتگاں کا سراغ“ پر منعقدہ مذاکرے میں کیا۔

 ممتاز دانش ور اور سابق وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ سید شاہد مہدی نے کہا کہ سرورالہدیٰ کی نظر اور گرفت کلاسیک اور جدید ادبیات پر یکساں ہے۔ 2004-20 لکھے گئے یہ مضامین یقینا ادبی نگارشات کی قوس قزح ہیں۔ مرکز برائے السنہ ہند، جے این یو کے سابق سربراہ اور بزرگ ادیب و نقاد پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے کہا کہ سرورالہدیٰ نے ”رفتگاں کا سراغ“ لکھ کر اپنے عہد کے ادیبوں کی زبانی تاریخ مرتب کردی ہے۔ اس کتاب میں نہ عقیدت ہے، نہ انکسار بلکہ ایک بالغ نظری ہے۔ ممتاز نقاد اور سابق صدر شعبہ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پروفیسر قاضی جمال حسین نے کہا کہ سرورالہدیٰ نے خودکو سستی نمود و نمائش سے دور رکھتے ہوئے خاموشی کے ساتھ علمی انہماک سے وابستہ رکھا، یہ قابلِ قدر ہے۔ممبئی سے تعلق رکھنے والے مشہور ادیب و نقادمحمد اسلم پرویز نے کہا کہ یاد نگاری اور شخصیت نگاری کے ساتھ تجزیہ و تبصرہ کی آمیزش سرورالہدیٰ کی تحریروں کو وقیع اور منفرد بناتی ہے۔

بزرگ ادیب و دانش ور پروفیسر عتیق اللہ نے مذاکرے کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سرورالہدیٰ کی یہ کتاب مثالی ہے، جس میں انھوں نے نہایت صبر و تحمل کے ساتھ مختلف چہروں کی ایک انجمن سجا دی ہے اور مختلف نظریہ و خیال کو یکجا کردیا ہے۔ ان کے یہاں ایک خاص آگہی جلا پاتی ہے۔ سرورالہدیٰ کی تحریر میں ایک جاذبیت اور شعریت بھی کارفرما ہے۔

حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے معروف ادیب و دانش ور پروفیسر سید خالد قادری نے کہا کہ سرورالہدیٰ علمی اعتبار سے اپنی تجدید میں بہت دیانت دار ہیں۔ ”رفتگاں کا سراغ“ میں شامل تحریروں کی سرسری قرأت سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ تاثراتی مضامین ہیں، لیکن گہرے مطالعے سے اس کی تردید ہو جاتی ہے۔ صدرِ شعبہ پروفیسر شہزاد انجم نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ علم و ادب سے سرورالہدیٰ کی جنونی وابستگی بے نظیر و بے مثال ہے۔ انھوں نے بیسیوں کتابیں تصنیف، ترتیب اور تدوین کی ہیں۔ان کا مطالعاتی کینوس وسیع ہے اور وہ ادبی دنیا میں بپا ہونے والی نت نئی ہلچلوں سے باخبر رہتے ہیں۔ عہدِ حاضر کے ممتاز فکشن نگار اور شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاد پروفیسر خالد جاوید نے کہا کہ آج کے انسان کو ماضی و حال کی فراموشی کا مرض لاحق ہے اور سرورالہدیٰ کی یہ کتاب اسی پر ایک ضربِ کاری ہے، بلکہ اس فراموشی کے خلاف ایک احتجاج ہے۔ سرورالہدیٰ جیسی تنقیدی ذہانت اور انہماک ان کے ہم عصروں میں شاذ ہے۔ معروف ترجمہ نگار اور ڈین فیکلٹی برائے انسانی علوم و السنہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر محمد اسدالدین نے اپنے پیغام میں ڈاکٹر سرورالہدیٰ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے مبارک باد پیش کی۔ صاحبِ کتاب ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے اظہارِ تشکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ شام میرے لیے بہت تاریخی بن گئی ہے، جس میں اہم شخصیات نے حصہ لے کر ان لمحوں کو یادگار بنا دیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت نے مجھے بہت اداس کردیا تھا۔ بلاشبہ رفتگاں سے میرا جذباتی رشتہ ہے، لیکن یہ رشتہ صرف ملاقاتوں اور اخلاقی باتوں سے قائم نہیں ہوسکتا تھا اگر ان کی تحریروں سے میری وابستگی نہ ہوتی۔

 اس یادگار مذاکرے میں پروفیسر مظہر مہدی، پروفیسر ارشد مسعود ہاشمی، پروفیسر حبیب اللہ خان، پروفیسر کوثر مظہری، پروفیسر ندیم احمد، ڈاکٹر اے نصیب خان، صبا شمیم حنفی، ڈاکٹر امتیاز وحید، اکرم نقاش، غزالہ شمیم، سیمیں شمیم، ڈاکٹر جنید اکرم فاروقی، ڈاکٹر فوزان احمد، ڈاکٹر رضوان الحق، ڈاکٹر شاہ عالم، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین اور ڈاکٹر جاوید حسن کے علاوہ بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالرس اور طلبا و طالبات شریک ہوئے۔

Recommended