نئی دہلی،28 مئی ، 2022/ تعلیم کے مرکزی وزیر دھرمیندر پردھان نے پنے میں آج سیمبایوسس بین الاقوامی یونیورسٹی میں قومی تعلیمی پالیسی پر عمل درآمد سے متعلق گول میز کانفرنس میں شرکت کی۔
جناب دھرمیندر پردھان نے اس موقعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020 ، 21ویں صدی کا ایک علمی دستاویز ہے ۔ اس کا مقصد کسی فرد کی مجموعی ترقی کو فروغ دینا ہے اور ہر ایک کو تعلیم کی رسائی تک بہم پہنچانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت علمیت پر مبنی معیشت کا مرکز بن گیا ہے اور عالمی معیشت میں ہمارا تعاون خاطر خواہ ہے۔
وزیر موصوف نے زور دے کر کہا کہ ہماری تعلیمی تخلیقیت کو نئی دنیا میں بھارت کےلیے ایک صحیح جگہ کو یقینی بنانے میں ایک بڑا رول ادا کرنا ہے۔ ٹکنالوجی اور ڈیجیٹل معیشتوں کے ہر جگہ ہونے کی وجہ سے دنیا ایک چھوٹا سا خطہ بن کر رہ گئی ہے۔ آج ہم اس ابھرتے ہوئے نئے عالمی نظام کے راستے میں کھڑے ہیں ۔ ہم ٹکنالوجی اور خود کاری میں کتنی اچھی طرح ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں اور کتنے نئے ہنر حاصل کرتے ہیں اس سے مستقبل کے کام کے تئیں ہماری چوکسی واضح ہوگی اور ابھرتے ہوئے نئے عالمی نظام میں ایک قاعدانہ رول کی وضاحت ہوگی۔ ہم سب کے لیے خاص طور پر ہمارے تعلیمی سماج کے لیے کافی زیادہ موقعے موجود ہیں۔
جناب پردھان نے یہ بات اجاگر کی کہ ہمارا تعلیمی نظام ماضی میں کافی غیر لچکدار رہا ہے۔ کثیر موضوعاتی اور مجموعی تعلیم ایک چیلنج تھی لیکن قومی تعلیمی پالیسی 2020 کی وجہ سے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ ہماری تدریس اور آموزش مزید متحرک ، سب کی شمولیت والی ، لچکدار اور کثیر موضوعاتی بن جائے۔
جناب پردھان نے کہا کہ کہ پچھلے 75 سال میں ہم اپنے حقوق پر اصرار کرتے رہے اور اب وقت ہے کہ ہم اپنے فرائض کے راستے پر چلیں۔ اس سلسلے میں ہمارے اساتذہ سے بہتر کوئی اور نہیں ہو سکتا کہ وہ ہماری توجہ فرائض کی ادائیگی اور ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی طرف مبذول کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آن لائن تعلیم ایک نئی حقیقت ہے۔ اور تدریسی برادری کو نئے تعلیمی محرکات تعمیر کرنے چاہئیں نیز ای – آموزش کا کوالٹی مواد ، آن لائن آموزش کو یقینی بنانے کے لیے رہنما خطوط تشکیل دینے کےلیے آگے آنا چاہیے جو محض استحصال کرنے والی مارکیٹ طاقتوں تک محدود نہیں ہے اور ڈیٹا اجارہ داری کے تحفظ تک محدود نہیں ہے۔
وزیر موصوف نے زور دے کر کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے عین مطابق عالمی شہری تشکیل دینے اور عالمی امیدوں پر پورا اترنے کے لیے ہمارے تعلیمی اداروں کو یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ وہ مادی امیدوں کے اعلیٰ کار بننے کی بجائے علم اور تفویض اختیارات کے اعلیٰ کار بنیں۔