Urdu News

ہم نے مسجدوں اور مدرسوں کو جانا ،کیاہم دار القضاء کو بھی جانتے ہیں؟

محمد نظر الہدیٰ ندوی

محمد نظر الہدیٰ ندوی

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ اب تک یہی سمجھتے ہوئے  آرہا ہے کہ  مسلمانوں کی دینی زندگی کا رشتہ ظاہر حال میں   فقط مسجدوں اور مدرسوں سے ہی وابستہ ہے، اور     یہی ان کے لئے کافی اور  شافی ہیں،  لہذا وہ  صرف انہیں دائرے میں محصور ہو کر اپنی دینی زندگی کے تمام تر مسائل کا حل  تلاشنے کے لئے راضی اور کمر بستہ ہیں،لیکن جن مسئلوں میں انہیں یہاں سے حل نہیں  دکھائی دیتا تو وہ نادانستہ طور پر غیروں کے دروازے کھٹکھٹانے پر مصر ہوجاتے ہیں اور پھر جو دشواریاں انہیں  لاحق ہوتی ہیں ان کا  خمیازہ پوری ملت کو بھگتنا پڑتا ہے۔

حالانکہ  اسلام نے زندگی کے مختلف شعبوں کے لئے باضابطہ الگ الگ نظام کو  طئے کیا ہے ،جو مسلمانوں کی دینی زندگی کے لئے بے حد ضروری ہے۔  انہیں میں سے ایک  نظامِ عدلیہ اور نظام  قضاء بھی  ہے  جس کا عملی نفاذ دارالقضاء کے ذریعہ سے  ہوتا ہے ،تاہم امت کا ایک بڑا طبقہ  دارالقضاء کی حقیقت سے ناواقف ہے ،گویا انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ  آخر  یہ  کس چڑیے کا نام ہے ؟

دارالقضاء کی واقعیت اور افادیت کو جاننا  تو درکنار اس کے نفس الفاظ سے ہی ناآشنا ہیں ،اب اس تعلق سے مورد الزام کن کو ٹھہرایا جائے ؟ کیا ان لوگوں کو کوسا جائے جنہوں نے کہیں نہ کہیں دین کی زمہ داریوں کا بار اپنے سر پر اٹھایا  اور اس سلسلے میں غیر معمولی طور پر کوتاہی برتی؟ یا انہیں کہا جائے جو مدتوں  ممبر و محراب پر جلوہ افروز  ہوکر اپنے منتخب مواعظ و بیانات کے گل کھلاتے رہیں  مگر اس موضوع پر  لب کشائی کرنے کی زحمت تک گوارہ نہیں کیا ؟ یا پھر انہیں کہا جائے جو  مذکورہ نظام سے بالکلیہ  ناواقف تھے اور خود سے  جاننے  کی سعی بھی  نہیں کی…… ؟

تاہم اس بات سے کسی کو انکار نہیں  کہ اس موضوع پر بالکلیہ   بات ہی  نہیں رکھی گئی البتہ   جس شرح و بسط کے ساتھ  ترجیحی ایجنڈے کے طور پر  وضاحت مطلوب تھی اس میں حددرجہ سستی  سے کام لیا گیا ۔ بہر  حال یہ ایک سچائی ہے کہ اس سلسلے میں بڑے بڑوں سے کوتاہی ہوئی اور اس پر  مفصل روشنی نہیں ڈالی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امت بہت سی پریشانیوں کا شکار ہوتی چلی گئی ،اور ان کے  منفی اثرات پوری ملت اسلامیہ پر پڑنے لگے ،جیسا کہ اس  کا اندازہ گزشتہ 5 سالوں سے  ملک کے تمام شہری خصوصاً مسلمانوں  کو خوب   ہوتا رہا ہے ،مگر جب تک اس تعلق سے دفاعی اقدامات کے ذریعہ کوئی روک تھام کیا جاتا تب تلک کافی دیر  ہو چکی رہتی ہے ، پھر زبان پر  وہی محاورہ آتا ہے کہ اب کیا فائدہ جب چڑیا چگ گئی کھیت۔۔!

لہذا  مسلمانوں کا دینی اور مذہبی  فریضہ ہے کہ جس طرح ہم نے مسجدوں اور مدرسوں کو سمجھا ہے  اسی طرح   ہم جانیں کہ  دارالقضاء کیا ہے؟  اور یہ کس نظام سے منسلک ہے ؟ نیز مسلمانوں کی دینی زندگی سے اس کا  شرعاً کیسا رشتہ بناہوا ہے ؟  اس کے ذریعہ ہم اپنی دینی زندگی کے کن کن مسائل میں  کب اور کیسے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں ۔

اب اس رو سے بنیادی طور پر  چند باتوں کو   خوب اچھی طرح  جان لینی چاہیے  کہ  قضاء کا نظام دراصل  انسانی ضرورتوں کی ایک تکمیل ہے  کیونکہ اس کا تعلق  فطرت اور نیچر سے ہے ۔ جس کے بغیر  انسانی آبادی کی بقاء تقریبا محال ہے۔

کیونکہ انسانی زندگی میں بہت سے ایسے  مراحل اور واقعات  پیش آتے رہتے ہیں جہاں  خواہشات اور مفادات کے درمیان  کبھی کبھی زبردست قسم کے تصادم اور ٹکراؤ کی صورت پیدا ہو جاتی ہے  اور یہی چیزیں بسااوقات انسان کو  حقوق تلفی ،نزاع باہمی  ،مار پیٹ ،چوری ڈکیتی اور قتل و غارتگری جیسے جرائم کا مرتکب بنا دیتی ہیں۔ اس لیے انسانیت کو ایک  ایسے نظام کی ضرورت  تھی جس کے ذریعے مظلوموں کو  انصاف ،حق داروں کو ان کے حقوق اور ستم شعاروں کو جرائم پر روک تھام کی جاسکے  ۔

 لہذا   اسی نقطہء نظر سے انسانیت  کے مختلف  عہدوں میں  فطرت  کے  اس تقاضے کو پورا کرتے ہوئے مذہبی اور غیر مذہبی طریق پر  محکمہ قضاء اور نظام عدلیہ کی بنیاد رکھی  گئی  اور انہیں  اختلافی مسائل   میں انسانیت کی رہنمائی کا  قانونی مرکز تصور کیا گیا یعنی عدالت اور قانون کا مستقل نظام بنایا گیا،  اور آج بھی دنیا کے ہر ملکوں میں یہ نظام پایا جاتا ہے   جسے لوگ زبان کی الگ الگ تعبیرات میں جانتے اور سمجھتے ہیں ۔

البتہ جس خوبصورتی کے  ساتھ مذہب اسلام  نے محکمہ قضاء اور عدلیہ نظام کو ایک خاص مقام دیا اور اپنے مضبوط اصولوں اور پختہ ضابطوں کے ذریعے مستحکم کیا اس کی نظیر تلاشنا عنقاء ہے ۔

گویا مذہب اسلام نے جہاں باہمی یگانگت، محبت و مودت کے احکام بتائے وہیں نزاع  باہمی اور اختلاف و تصادم کے مواقع کے لئے بھی احکام و قوانین وضع کیے پھر  انہیں بروئے کار لانے کے لیے  بے مثال اور انوکھا عدالتی نظام کو  نافذ کیا جسے  نظام عدلیہ ،محکمہ شرعیہ  یا دارالقضاء کہتے ہیں۔

اگر شرعی حیثیت سے بات کی جائے تو دارالقضاء کا نظام مسلمانوں کی دینی زندگی کے لئے ایک محکم فریضہ ہے  جس سے دستبردار ہونے پر پوری ملت عند اللہ معتوب ٹھہرائی جاسکتی ہیں ۔تاہم  نظام قضاء سے متعلق قرآن مجید کے بیسیوں مقامات پر اللہ تعالیٰ کے واضح احکامات  موجود ہیں جن میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ  وہ اپنے مذہبی معاملات و مسائل کے حلول و تصفیہ میں   اسلامی عدلیہ  کو چھوڑ کر غیر اسلامی عدلیہ کے درواز ے نہ  کھٹکھٹائیں ۔نیز حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ  کا  یہ مشہور قول کہ "ان القضاء فریضۃ محکمۃ و سنۃ متبعۃ"  کا یہی مطلب ہے کہ قضاء کا نظام مسلمانوں کی دینی زندگی کے لئے  نہایت ضروری ہے اور یہ دین کا ایسا لازمی حصہ ہے  جس سے  کسی بھی  ملک میں جہاں مسلمان آباد  ہیں  غفلت نہیں برتی جا سکتی ۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی فقہ نے غیرمسلموں کی حکومت میں بھی  قاضی  شرع اور  امیر مسلم کے قیام کو ضروری قرار دیا۔ 

درحقیقت دار القضاء مسلمانوں کا وہ قومی ادارہ ہے جو اسلامی اساس پر معاشرے کو منظم کرتا ہے، معاشرے میں عدل و انصاف کا ماحول پیدا کرکے ان میں ہونے والے ظلم و زیادتی اور نزاعات کا باہمی صلح و تصفیہ سے خاتمہ کرتا ہے ۔ مظلومہ، عاجزہ  اور ستم رسیدہ عورتوں کو ان کے شوہر کے ظلم و جور سے فسخ نکاح یا خلع  کے ذریعے آزاد کراکر قرآن وحدیث کےمطابق صحیح اور صالح  زندگی گزارنے کا مشورہ دیتا ہے۔اور ان میں  سب سے اہم یہ ہے کہ دارالقضاء  دستور ہند کے عین مطابق ہے کیونکہ یہ  ایک میڈیٹر اور ثالثی کا رول ادا کرتا ہے ۔گو  آئینی طور پر  اس کی پوری اجازت ہے کہ مسلمان اپنے عائلی معاملات جیسے ،خلع ،فسخ نکاح ،وراثت ،حضانت ،مفقود الخبری ،کفاءت ،خیار بلوغ ،ارتدادِ احد الزوجین   وغیرہ کے تصفیہ اور حلول میں دارالقضاء سے رجوع کریں۔ لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ  مذکورہ بالا  موضوعات پر ماسوا چند تنظیموں کے  ترجیحی حیثیت کے ساتھ  عوامی سطح پر روشنی  ڈالنے کو ضروری نہیں سمجھا گیا  ،اور نہیں اس تعلق سے عمائدین اور مسلم زمہ داروں  کی طرف سے کوئی دلچسپی پائی گئی ۔ جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ مستقل ایجنڈے کی تحت علماء اور ائمہ مساجد کے ذریعہ  ہر جمعے کو اس کی تفصیلات بیان کی جاتی اور لوگوں کو متعارف کرایا جاتا کہ دارالقضاء مسلمانوں کے لیے کتنا اہم اور انکی دینی زندگی کے لئے کتنا ضروری ہے ۔ 

یاد رہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں ملک میں   مسلمانوں کے لیے دارالقضاء کا قیام  ایک نعمت عظمیٰ  اور  بڑا سرمایہ ہے ، خاص کر اس وقت جب  دستور ہند کی طرف سے ہمیں پوری اس کی اجازت دی گئی ہو  نیز یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے ہم بلا  اختلاف مسلک و مشرب کے   پوری کی پوری ملتِ اسلامیہ کو  متحد کر سکتے ہیں اور عائلی اور گھریلو معاملات میں دارالقضاء سے روجوع کرکے بہت سی پریشانیوں سے نجات پا سکتے ہیں ۔ فقط

(معرفت محمد شمیم انصاری،میلا رائے گنج،بارہ بنکی،یوپی)

Recommended