ہو کہیں بھی آگ لیکن یہ آگ جلنی چاہیے: دشینت کمار، جنہوں نے ہندی غزل کو نئے معنی، نئی تعریف اور مختلف مزاج دیا۔ بہت کم وقت میں شہرت حاصل کرنے والے ہندی کوی اور غزل کار دشینت کمار نے 30 دسمبر 1975 کو دنیا کو الوداع کہہ دیا۔
یکم ستمبر 1933 کو اتر پردیش کے شہر بجنور میں پیدا ہونے والے دشینت کمار کو صرف 44 سال کی زندگی ملی لیکن مقبولیت ایسی ملی کہ ان کے کئی شعر تحریکوں کا نعرہ بن گئے اور لوگوں نے اسے محاوروں کی طرح استعمال کیا-
ہو گئی ہے پیر پروت سی پگھلنی چاہیے، اس لیے ہمالیہ سے کوئی گنگا نکلنی چاہیے۔1975میں شائع ہونے والا دشینت کمار کا غزل مجموعہ ’’سائے میں دھوپ‘‘سب سے زیادہ مقبول غزلوں کا مجموعہ ہے۔ ان کی دیگر تخلیقات میں شاعری ڈرامہ ’’ایک کنٹھ وشپائی‘‘، ڈرامہ ’’اور مسیحا مار گیا‘‘، شعری مجموعہ ’’سوریہ کا سواگت‘‘، ’’آواز کے گھرے‘‘، ’’جلتے ہوئے ون کا بسنت‘‘شامل ہیں۔
معروف شاعر ندا فاضلی نے دشینت کمار کی تحریر کے بارے میں لکھا – دشینت کی نظر ان کے عہد کی نئی نسل کے غصے اور ناراضگی سے مزین ہیں۔ یہ غصہ اور ناراضگی سیاست کی ناانصافیوں اور غلط کاموں کے خلاف نئے رویوں کی آواز تھی۔