Urdu News

ڈاکیومنٹری فلموں کے حوالے سے شری کا نت سکسینہ کی اردو خدمات

تربیت یافتہ پروفیشنل فلم کار شری کا نت سکسینہ

 ڈاکیومنٹری  فلم  اور  شری کا نت  سکسینہ 

ڈاکیومنٹری  فلموں  کے حوالے سے شری کا نت سکسینہ  کی اردو  خدمات 

شری کا نت سکسینہ کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ وہ ایک تربیت یافتہ پروفیشنل فلم کار ہیں۔ ہندی اور اردو کے شاعر ہیں۔ حکومت ہند کے منسٹری آف انفارمیشن اینڈ براڈکاسٹنگ کے ایک اعلیٰ افسر ہیں۔ ڈی ڈی نیشنل، ڈی ڈی بھارتی، ڈی ڈی اردو، ڈی ڈی سپورٹس اور دوردرشن آرکائیز میں اہم عہدوں پر اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ دوردرشن  کے لئے ”اُڑان“ کے نام  سے بہت مقبول  سیریل بنا چکے ہیں۔ کئی ٹیلی فلمس کے اسکرپٹ نگار رہے ہیں۔ ڈاکیومنٹری فلمیں بنانا آپ کا شوق ہے۔ ڈاکیومنٹری فلمیں بنانے میں آپ کو مہارت حاصل ہے۔ آپ نے اردو کے حوالے سے بھی بہت کار آمد اور دلچسپ ڈاکیومنٹری فلمیں بنائی ہیں۔  بہت اچھے مصور ہیں۔ آپ کی پینٹنگس کو عالمی سطح پر مقبولیت حاصل ہے۔ اور ان سب سے بڑھ کر شر ی کانت سکسینہ اردو کے عاشق ہیں۔ 
شری کانت سکسینہ  مرادآباد کے چندوسی میں پیدا ہوئے لیکن آپ کی پرورش رام پور میں ہوئی۔ جہاں آپ کے نانا شیو بہادر سکسینہ تحصیلدار کے عہدے پر فائز تھے۔ سری کانت جی اگرچہ سائینس کے اسٹوڈنٹ تھے لیکن زبان و ادب سے دلچسپی تھی۔ آپ اسکول سے کالج اور پھر یونیورسٹی تک ہمیشہ ٹاپر اسٹوڈنٹ رہے۔ انڈین آئل میں بطور مینیجر آپ کا تقرر ہوا۔ یہ وہ عہدہ ہے جس میں بارہ مہینے گھر میں لکشمی برستی ہیں۔ لیکن ایمانداری کو اپنی زندگی کا مقصد بنانے والے شری کانت سکسینہ کو یہ عہدہ راس نہ آیا۔ آپ نے اس نوکری سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ پھر اور بھی غضب ہوا۔ آپ کا تقرر یو پی پی سی ایس میں ہوا، ہر ماں باپ کا سپنا ہوتا ہے کہ اس کا بیٹا کلکٹر بنے، اور نہ بن سکے تو کم از کم ڈپٹی کلکٹر ہی بن جائے۔ شری کانت سکسینہ کے سامنے ڈپٹی کلکٹری دامن پسارے کھڑی تھی۔ اور یہ فقیر اپنی دھُن میں راگ بیراگی گاتا ہوا آگے نکل گیا۔ اپنے پرائے سب نے سمجھ لیا کہ صاحب کچھ دیوانے ہیں۔ عزیز و اقارب نے دنیا داری سمجھانے کی کوشش کی تو حضرت نے باتوں کو ہنسی میں اُڑا دیا۔ گویا لوگوں سے خاموش زباں میں کہہ رہے ہوں کہ ”کاروبارِ الفت میں سود کیا، زیاں کیا، تم نہ جان پاؤگے۔ تم مریضِ دانائی، مصلحت کے شیدائی، راہِ گمرہاں کیا ہے، تم نہ جان پاؤگے۔ پھر تو احباب نے فقیر کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔  دیوانے کو دنیا بھر کی کتابیں پڑھنے اور فلمیں بنانے کا شوق تھا۔ منسٹری آف انفارمیشن اینڈ براڈکاسٹنگ کا افسر بن کر آپ نے  فلمیں بنانے کا شوق پورا کیا۔ اور یہ سفر جاری ہے۔ اپنی ایمانداری اور بے باکی سے کئی افسران کے لئے مصیبت بھی بنتے رہتے ہیں۔ مست جوگی ہیں۔ اپنی دھُن میں رہتے ہیں۔
دوردرشن میں بطور افسر بھی اور بطور پروڈیوسر بھی آپ اپنی خاص شناخت رکھتے ہیں۔ یہاں اس مختصر سے مقالے میں شری کانت سکسینہ کی جملہ خدمات کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا ہے۔ یہاں صرف آپ کی ڈاکیومنٹری فلموں کے حوالے سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں ڈاکیومنٹری فلمیں جنھیں اردو میں دستاویزی فلمیں بھی کہتے ہیں، حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں۔ فکشن سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ڈاکیومنٹری فلموں کے بارے میں سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ وہ حقائق پر مبنی ہوتی ہیں۔ دراصل یہ فلمیں کسی موضوع سے متعلق دستاویز ہوتے ہیں جنھیں فلم ساز ایک خاص ترتیب و تنظیم سے کیمرے کے ذریعے پیش کرتا ہے۔ ڈاکیومنٹری فلم کی شوٹنگ سے پہلے موضوع سے متعلق ریسرچ کی بہت اہمیت ہے۔ ریسرچ کے مراحل سے گزر کر تمام دستاویزات  جمع کر کے شوٹنگ کی ترتیب بنا لی جاتی ہے۔ پھر کیمرہ میں ڈائریکٹر کی ہدایات کے مطابق شاٹس لیتا رہتا ہے۔ ایک ایک مناظر کے کئی شاٹس لے لئے جاتے ہیں تاکہ ایڈیٹنگ کے وقت جو شاٹ سب سے بہتر ہو اس کا استعمال کیا جا سکے۔ فلم کی شوٹنگ مکمل ہونے کے بعد اسکرپٹ رائٹر کا اصل کام شروع ہوتا ہے۔ فیچر فلموں میں عموماً فلم کی شوٹنگ شروع ہوتے ہی اسکرپٹ رائٹر کا کام ختم ہو جاتا ہے لیکن اس کے برعکس ڈاکیومنٹری فلموں میں فلم کی شوٹنگ مکمل ہونے کے بعد اسکرپٹ رائٹر اپنے کام کو آخری شکل دیتا ہے۔ شاٹس کے مطابق جملوں کا لکھا جانا بہت اہم ہوتا ہے۔ خالص اردو میں ڈاکیومنٹری فلمیں بنانے کا چلن ذرا کم ہے۔ ڈاکیومنٹری فلموں کی شوٹنگ پہلے ہوتی ہے اور اسکرپٹ بعد میں لکھی جاتی ہے۔ شوٹنگ سے پہلے موضوع سے متعلق کچھ اہم باتوں کو نوٹ کر لیا جاتا ہے۔ پھر ریکی کے لئے ایک ٹیم بھیجی جاتی ہے، جو تمام معلومات کو جمع کرکے ایک رپورٹ پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کو دیتی ہے۔ شوٹنگ سے پہلے ریکی  اس لئے ضروری ہے کہ شوٹنگ کے لئے کئی افراد پر مشتمل ٹیم موقعے پر جاتی ہے۔ اگر پہلے سے تمام جانکاری لئے بغیر ٹیم لیکر پہنچ جائیں تو ممکن ہے کہ شوٹنگ کا کام طے وقت میں نہ ہو سکے۔ اور پوری ٹیم کو ناکام لوٹنا پڑے۔ 
ڈاکیومنٹری فلم بنانا بیک وقت تخلیقی اور تکنیکی کام ہے۔ جس شخص میں تخلیقی قوت اور تکنیکی علم کا خوبصورت امتزاج ہو وہی ایک اچھا ڈاکیومنٹری فلم بنا سکتا ہے۔ شری کانت سکسینہ میں یہ دونوں خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ وہ زبردست تخلیقی قوت کے مالک ہیں اور ساتھ ہی ساتھ فلم سازی کی اعلیٰ ترین ادارے سے تربیت یافتہ ہیں۔ جہاں تک اردو میں ڈاکیومنٹری فلمیں بنانے کا تعلق ہے تو شری کانت سکسینہ نے غالب کی حویلی اور غالب کی دلّی کے حوالے سے بہت خوبصورت فلمیں بنائی ہیں۔ وہ چونکہ غالب کے پرستار ہیں اور غالب کی شاعرانہ عظمت سے واقف ہیں اس لئے جب انھوں نے غالب کی حویلی پر ڈاکیومنٹری فلم بنائی تو اس فلم میں صرف حویلی کے در و دیوار ہی نہیں نظر آئے بلکہ اس میں غالب کی روح بھی نظر آئی۔ اس میں مفتی صدرالدین آزردہ، امام بخش صہبائی، مومن خاں مومن، شیخ محمد ابراہیم ذوق اور بہادر شاہ ظفر بھی نظر آئے۔ یہ سب اس لئے ممکن ہو سکا کہ فلم ساز شری کانت سکسینہ غالب اور کلامِ غالب سے واقف تھے۔ وہ مقامِ غالب سے واقف تھے۔ اسی طرح جنگ آزادی اور اردو شاعری کے حوالے سے انھوں نے بھرپور تحقیق کے بعد بہترین ڈاکیومنٹری فلم بنائی۔ آدھے گھنٹے کی فلم میں پوری اردو شاعری کو اس خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا کہ کوئی اہم پہلو  چھوٹنے نہ پائے۔ اردو صحافت کے سفر پر بھی آپ نے بہت اچھی ڈاکیومنٹری فلم بنائی ہے۔ چندوسی کے ان مسلمان دست کاروں پہ آپ نے ڈاکیومنٹری فلم بنائی ہے جو صدیوں سے بھگوان رام کی مورتیاں بنانے کا کام کرتے ہیں۔ اور مورتیاں بنانے کی اجرت نہیں لیتے۔ ان ڈاکیومنٹری فلموں کی خاص بات یہ تھی کہ یہ فلمیں شری کانت سکسینہ نے ڈی ڈی اردو کے فنڈ سے نہیں بنایا۔ ڈی ڈی اردو کے بینر سے نہیں بنایا۔ ڈی ڈی بھارتی اور ڈی ڈی نیشنل کے پیسے سے اردو کی فلمیں بنا رہے تھے۔ اور دوسری اہم بات کہ ان تمام ڈاکیومنٹری فلموں کی اسکرپٹ شری کانت سکسینہ نے لکھی۔ 
جگر مراد آبادی پہ بھی آپ نے بہت خوبصورت ڈاکیومنٹری فلم بنائی ہے۔ اس فلم کی شوٹنگ کے دوران راقم السطور نے شری کانت سکسینہ کا جنون دیکھا ہے۔ خاکسار بھی اس فلم ٹیم کا ایک غیر ضروری حصہ تھا۔ ہم نے جگر مراد آبادی کے تعلق سے تمام تفصیلات جمع کیں۔ دوران ِ ریسرچ اندازہ ہوا کہ شری کانت سکسینہ نہ صرف جگر صاحب کے کلام سے واقف ہیں بلکہ جگر کے حوالے سے گونڈہ اور پھر اصغر گونڈوی سے بھی واقف ہیں۔ کراچی اور لاہور میں کہاں کہاں جگر مراد آبادی کے نام سے سڑکوں اور پارکوں کے نام رکھے گئے ہیں، وہ بھی شری کانت جی کے علم میں تھا۔فلم سازی کے لئے جس قدر لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو اس راہِ پُر خطر سے گزرا ہو۔ دوردرشن میں بجٹ کا اپنا خاص نظام ہے۔ سرکاری معاملات اکثر و بیشتر حوصلہ شکن ہوتے ہیں۔ جگر صاحب پہ فلم بنانے کا کام شروع ہوا تو ریکی کے لئے کسے بھیجا جائے؟ یہ اہم سوال تھا۔ بجٹ تھا نہیں۔ شری کانت جی نے ایک روز مجھ سے کہا کہ جمعہ کی شام میں چلتے ہیں، سنیچر اتوار کی چھٹی مراد آباد، رامپور۔ بریلی میں دوست احباب سے مل آتے ہیں۔ ریکی بھی کر لیں گے۔ یہ ان کی اردو سے محبت ہی ہے کہ اپنی گاڑی اور ڈرایؤر لیکر ریکی کرنے نکل پڑے۔ ہم مراد آباد پہنچے۔ وہاں جگر صاحب سے وابستہ تمام چھوٹی بڑی چیزوں کی فہرست بنائی گئی۔ ہم شری کانت جی کے ساتھ کہیں کار سے، کہیں رکشہ سے اور کہیں پیدل گلیوں گلیوں گھومتے رہے۔ پھر رامپور پہنچے۔ رضا لائبریری، صولت پبلک لائبریری اور دیگر مقامات کی خاک چھانتے پھرے۔ پھر بریلی پہنچے، بریلی میں پروفیسر وسیم بریلوی اور موسیقار ایس کے سنگھ نے  ہماری بڑی مدد کی۔ ریکی کا کام مکمل کر کے دہلی واپس آئے۔ 
شوٹنگ کا دن طے ہوا۔ ہم لاؤ لشکر کے ساتھ مراد آباد پہنچے۔ شری کانت جی نے اعلیٰ افسران سے لڑ کر اس وقت کے بہترین کیمرہ مین ماگیش کے راؤ کو اپنے ساتھ لیا۔ مراد آباد میں اس وقت کے مئیر ڈاکٹر ایس ٹی حسن صاحب نے ہماری بہت مدد کی۔ ڈی ایم مراد آباد نے ہماری پوری ٹیم کے ٹھہرنے کا انتظام سرکاری ڈاک بنگلے میں کیا۔ شاعر اور ناظم مشاعرہ منصور عثمانی، شاعر ڈاکٹر مجاہد فراز، صنعت کار قمر صاحب، لائبریرین عبد الحمید شمسی، اسکول جنت نشاں کے مینیجر عتیق صاحب وغیرہ حضرات نے ہماری بھرپور مدد کی۔ جگر مراد آبادی کے بھانجے عزیز احمد صاحب نے بھی بہت اہم جانکاریاں فراہم کیں۔ ہم جگر صاحب کے آبائی مکان تک پہنچے۔ اس چشمے کی دکان پہ بھی گئے جس کے ایجنٹ جگر صاحب ہوا کرتے تھے۔ عبدالحمید شمسی صاحب نے جگر صاحب کے نام سے لائبریری قائم کر کے ان کی یادوں کو سجو کر رکھا تھا۔ جگر کی چھڑی، چشمہ، گھڑی، پین اور دیگر سامان ہمیں شمسی صاحب کی ذاتی لائبریری میں شوٹ کرنے کا موقع ملا۔ ان کی کتابوں کے تمام ایڈیشن کی شوٹنگ کی گئی۔ ہماری ٹیم کراچی اور لاہور نہیں جا سکی لیکن شری کانت جی کی کوششوں سے ہمیں کراچی اور لاہور کی ان سڑکوں اور پارکوں کے فوٹیج مل گئے جو جگر مراد آبادی کے نام سے منسوب تھے۔ 
جگر صاحب پہ شری کانت جی نے جو اسکرپٹ تیار کی اس کی سب نے پذیرائی کی۔ فلم کی شوٹنگ کے دوران آپ نے بڑی باریک بینی سے ایک ایک شاٹس کو بغور دیکھا۔ اور جب تک مطمعن نہیں ہوتے شاٹس او کے نہیں مانا جاتا۔ اتنی محنت اور جانفشانی سے فلم بنانے کا ثمر بھی ملا۔ جگر مراد آبادی پہ بنی اس ڈاکیومنٹری فلم کو اس سال کا بہترین ڈاکیومنٹری فلم ایوارڈ ملا۔ اس ایوارڈ کو عاشق اردو شری کانت سکسینہ نے اردو کے نام کر دیا۔ 

(ڈاکٹر شفیع ایوب، جے این یو، نئی دہلی)       

Recommended