نئی دہلی۔ 27 نومبر ہونا یا نہ ہونا۔ یہ بالکل وہی وجودی سوال ہے جس نے شیکسپیئر کے لازوال ڈرامے میں ہیملیٹ کو پریشان کیا تھا ۔ یہی سوال 10 سالہ لڑکے سدا کو کچھ مختلف اوتار میں پریشان کرتا ہے۔ اپنے گاؤں کی قدیم خوبصورتی اور سکون کو الوداع کرنے پر مجبور ہونے کے بعد، نوجوان لڑکے کو اس ناگزیریت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ اس شہر کی افراتفری اور اجنبی ہلچل،جس میں اس کا کنبہ منتقل ہوا ہےاور گاؤں کی پرسکون زندگی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے ۔سدا کے متضاد مظاہر نہ صرف اس پر زندگی کی کچھ تلخ حقیقتوں کا پتہ دیتے ہیں بلکہ وہ پائیداری اور شہری کاری کے اہم سوالات بھی اٹھاتے ہیں۔
ہاں، ہدایت کار گنیش ہیگڑے کی پہلی کنڑ فلم نیلی ہکی نے ہندوستان کے بین الاقوامی فلم فیسٹیول کے 52 ویں ایڈیشن میں شرکت کرنے والے فلمی مندوبین کو مدعو کیا کہ وہ سدا کے اندرونی انتشار میں شریک ہوں اور ہمارے مشترکہ حال اور مستقبل کے ان اہم سوالات کو تخلیقی طور پر محسوس کریں۔اس فلم کی نمائش آئی ایف ایف آئی کے انڈین پینورما فیچر فلم سیکشن میں کی گئی ہے۔
گزشتہ روز، 26 نومبر، 2021 کو فیسٹیول کے موقع پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، ہدایت کار نے کہا: " 52 ویں آئی ایف ایف آئی میں ہندوستانی ناظرین کے لیے اس فلم کی نمائش بہت خوشی کی بات ہے۔ فلم کا ورلڈ پریمیئر اس سال نیویارک فلم فیسٹیول میں ہوا تھا۔ اسے سرکاری طور پر میلبورن فلم فیسٹیول کے لیے بھی منتخب کیا گیا تھا۔ ہندوستان کے دور دراز جنوبی علاقوں سے ایک آزاد فلم کو ناظرین کے ذریعہ شناخت کرنا ہمیں مزید بہتر کام کرنےکے لیے بہت زیادہ اعتماد فراہم کرتا ہے۔
فلم کی شوٹنگ ایک بہت ہی چھوٹی کاسٹ اور عملے کے ساتھ ہدایت کار کے آبائی شہر میں اور اس کے آس پاس کی گئی ہے۔ "کوشش صرف یہ تھی کہ ایک ایماندار کہانی سنائی جائے اور ہم جو محسوس کرتے ہیں اس کا اظہار کریں۔ رکاوٹوں کے باوجود اس فلم کو بنانا مشکل ، تاہم ایک خوبصورت سفررہا ۔
اس فلم کو جنوبی ہند کے مشہور اداکار وجے سیتھوپتی نے حمایت حاصل رہی ہے۔ ، ہیگڑے، جنہوں نے فلم کا اسکرین پلے بھی لکھا ہے،بتایا کہ یہ ایک دلچسپ انداز میں ہوا۔"کووڈ – 19 کے لاک ڈاؤن کے دوران، ہر کوئی گھر پر بیٹھا تھا اور نئی فلمیں دیکھنا چاہتا تھا۔ کسی نہ کسی طرح، وجے سیتھوپتی سرنے، ہمیں بتائے بغیر، ہماری فلم کی جانکاری ہوئی ۔ انہوں نے ہماری کوششوں کو سراہا اور اس کی کہانی میں انہیں اپنی حقیقی زندگی کا عکس نظر آیا۔ چنانچہ انہوں نے خود اس منصوبے کا حصہ بننے کی پیشکش کی۔ ہم نے ساحلی کرناٹک کے ایک دور دراز گاؤں میں شوٹنگ کی اور سیتھوپتی ایک جنوبی سپر اسٹار ہیں۔ لہذا، جب انہوں نے اپنی مدد کرنے کی پیشکش کی تو ہمیں واقعی عزت افزائی کا احساس ہوا۔ جب ایسے سپر اسٹار اور بڑے پروڈکشن ہاؤس ہماری پیٹھ تھپتھپاتے ہیں تو اس سے ہمیں مزید طاقت ملتی ہے۔“
ہیگڑے نے او ٹی ٹی پلیٹ فارم اور آزاد فلم سازوں کے درمیان تعاون پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا "جب کچھ سال پہلے ہندوستان میں او ٹی ٹی پلیٹ فارم کا آغاز کیا گیا تھا، تو ہمیں امید تھی کہ اس سے سنیماکی حالت بہتر ہوگی، لیکن اس کے بجائے، اس نے مین اسٹریم سنیما کو درست کرنا شروع کیا۔ ہم ابھی بھی اپنے سنیما کو شروع کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم کی تلاش میں ہیں۔ علاقائی زبان سے تعلق رکھنے اور فیسٹیول سینما کے ٹیگ کی وجہ سے ہمیں ہمیشہ نظر انداز کیا جائے گا۔ آزاد سنیما یا چھوٹی کہانیاں صرف فیسٹیول کے لیے نہیں ہوتی ہیں، یہ سب کے لیے ہوتی ہیں۔ امید ہے کہ مستقبل میں ہمارے پاس کوئی مین اسٹریم یا آزاد سنیما نہیں ہوگا بلکہ صرف سینما ہوگا۔
انہوں نے او ٹی ٹی سے درخواست کی کہ ایسی فلموں کو ہندوستان کے عام لوگوں تک پہنچائیں۔ "سینما آرٹ کی ایک صنف ہے۔ چھوٹے فلم سازوں کے لیے مالی دشواریوں کا ازالہ مشکل ہوتا ہے۔ ہم کروڑوں کامیابیوں کو نہیں دیکھ رہے ہیں، ہم صرف ایماندار سنیما بنانے کے لیے آئے ہیں۔ اس لیے ہم سب جو چھوٹے شہر کی کہانیاں سنانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، ہم صرف لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
وقت اور جگہ سے قطع نظر سنیما تک رسائی کو بڑھانے میں او ٹی ٹی پلیٹ فارم کے متعلقہ فائدے کی وضاحت کرتے ہوئے ڈیبیو ڈائریکٹر نے کہا "ہم جانتے ہیں کہ تفریحی صنعت کیسے چلتی ہے، لیکن میں اپنے لیے سینما نہیں بنا رہا ہوں۔ میں اپنے فن کا اظہار اپنے سینما کے ذریعہ کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ او ٹی ٹی ہمیں مزید لوگوں تک پہنچنے کا راستہ فراہم کرے گا۔ فیسٹیول 10 دن کے لیے ہوتے ہیں، لیکن جب فلم او ٹی ٹی پر ہوتی ہے تو لوگ کسی بھی وقت دیکھ سکتے ہیں، یہی سب سے بڑا فائدہ ہے۔ اس سال، آسکر کے لیے تمل آزاد سنیما کو باضابطہ انٹری ملی ہے ، ہم بہت پر امید ہیں کہ او ٹی ٹی مستقبل میں آزاد سینما کی حمایت کریں گے۔