ظفر زندہ رہوں گا میں ہمیشہ اس تعلق سے
کہ میرا عہد میری شاعری میں سانس لیتا ہے
ظفرالدین عرف ظفر گورکھپوری 5مئی 1935کو گورکھپور کے بانس گاؤ ں میں بیدولی بابو گاؤں میں پیدا ہوئے۔ صرف نو سال کی عمر میں 1944میں اپنے والد کے ساتھ ممبئی چلے گئے۔ ممبئی کے میونسپلٹی کے پرائمری اسکول میں ٹیچر تھے۔ صرف سترہ سال کی عمر میں 1952میں شعر کہنا شروع کیا۔ پہلا مجموعہ کلام ”تیشہ“ کے نام سے 1962میں شائع ہوا۔ دوسرا شعری مجموعہ ”وادیئ سنگ“ 1975میں شائع ہوا۔ تیشہ اور وادیئ سنگ میں کیا مناسبت ہے یہ اہل نظر خوب جانتے ہیں۔
ظفر گورکھپوری ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ فراق گورکھپوری، جوش ملیح آبادی اور مجاز لکھنوی جیسے شاعروں کے ساتھ نہ صرف مشاعروں میں کلام پڑھنے کا موقعہ ملا بلکہ داد بھی وصول کرتے رہے۔ اردو میں دوہا نگاری کی کوئی بہت مستحکم روایت نہیں ملتی ہے۔ چند نام ہیں جیسے جمیل الدین عالی، بھگوان داس اعجاز، ندا فاضلی اور ظفر گورکھپوری۔ ظفر گورکھپوری نے دوہا نگاری میں بھی اپنی ایک الگ راہ قائم کی ہے۔ ظفر گورکھپوری بطور ایک دوہا نگار بھی ادبی حلقے میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔
مشہور زمانہ قوال یوسف آزاد اور رشیدہ بانو نے ظفر گورکھپوری کی لکھی قوالیوں سے دھوم مچا دی تھی۔ اجی بڑا لطف تھا جب کنوارے تھے ہم تم، یا دھیرے دھیرے کلائی لگے تھامنے، ان کو انگلی تھمانا غضب ہو گیا، جیسی مشہور قوالیاں ظفر گورکھپوری نے ہی لکھی تھیں۔ فلم بازیگر کا وہ گیت جو شاہ رخ خان پر فلمایا گیا تھا ”کتابیں بہت سی پڑھی ہوں گی تم نے“ ظفر گورکھپوری نے ہی لکھا تھا۔ ظفر گورکھپوری نے فلم کھلونا، ہلچل اور غنڈہ راج جیسی فلموں کے نغمے بھی لکھے۔ بچوں کا ادب بھی تخلیق کیا ہے۔ بچوں کے لئے ڈرامے لکھے۔ سور، تلسی، کبیر اور رحیم نے دوہا نگاری کی جو روایت قائم کی تھی اسے اردو میں پروان چڑھانے والوں میں ظفر گورکھپوری کا نام بہت اہم ہے۔
ظفر گورکھپوری کو مہاراشٹراردو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، امتیاز میر ایوارڈ، فراق سمان، وغیرہ سے نوازا گیا۔ ان کے وارثوں میں امتیاز گورکھپوری اور ایاز گورکھپوری آج بھی اردو شعر و ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ امتیاز گورکھپوری ایک مشہور ادبی رسالے کے مدیر اور نگراں ہیں۔ دنیا بھر میں سیمینار و کانفرنس میں شرکت کرتے ہیں۔ خود ظفر گورکھپوری کی یادوں کو سمیٹ کر زندگی میں بلندی کا سفر طے کر رہے ہیں۔ ایاز گورکھپوری خود بہت اچھے شاعر ہیں اور والد مرحوم کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے بھی اپنی ایک الگ پہچان قائم کی ہے۔ ایاز گورکھپوری فلمی نغمہ نگار بھی ہیں۔ انھوں نے کئی فلموں میں نغمہ نگاری کی ہے۔ ایاز گورکھپوری کے کلام پر مبنی کئی میوزک البم ہٹ ہو چکے ہیں۔ ملک کی کئی اہم ماڈلس ان کے البم میں اپنے حسن کا جادو بکھیرتی نظر آ رہی ہیں۔
ایک بھرپور اور جد و جہد بھری زندگی گزار کر بیاسی سال کی عمر میں 29جولائی 2017کو ظفر گورکھپوری اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
میں ایسا خوبصورت رنگ ہوں دیوار کا اپنی
اگر نکلا تو گھر والوں کی نادانی سے نکلوں گا
یہی اک شے ہے جو تنہا کبھی ہونے نہیں دیتی
ظفر مر جاؤں گا جس دن پریشانی سے نکلوں گا
ظفر گورکھپوری، اردو شاعری، فلمی نغمہ نگاری، فلم بازی گر، ممبئی میں اردو شاعری، ترقی پسند اردو شاعری، ایاز گورکھپوری، فراق گو رکھپوری،
ممتاز شاعر و فلمی نغمہ نگار ظفر گورکھپوری
فلم بازی گر کا نغمہ لکھ کر ظفر گورکھپوری نے شاہ رخ خان کا دل جیت لیا تھا