Categories: تفریح

من تڑپت ہری درشن کو آج“جیسا بھجن شکیل بدایونی ہی لکھ سکتے تھے

<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
<strong>فلمی نغمہ نگاری کی آبرو تھے شکیل بدایونی۔ آج یعنی 20اپریل ان کی برسی ہے</strong></p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
ہندوستانی فلموں کو جن نغمہ نگاروں نے اپنے گیتوں سے سجایا ان میں ایک بہت اہم نام شکیل بدایونی کا ہے۔ شکیل بدایونی کے علاوہ آرزو لکھنوی، راجندر کرشن، ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی، جاں نثار اختر، شیلیندر، اندیور، مجروح سلطان پوری، حسرت جے پوری، آنند بخشی، ندا فاضلی، گلزار، اور جاوید اختر جیسے شاعروں نے ہندوستانی فلموں کو کامیاب ترین گیتوں سے نوازا۔ اس فہرست میں جوش ملیح آبادی، علی سردار جعفری، کیف بھوپالی اور راحت اندوری جیسے شاعروں کا نام بھی شامل ہوگا۔ فہرست سازی مراد نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ ہندوستانی فلموں کے پانچ کامیاب ترین نغمہ نگاروں کے نام لکھنے ہوں تو شکیل بدایونی، ساحر لدھیانوی، مجروح سلطان پوری، آنند بخشی اور جاوید اختر کے نام اس فہرست میں شامل ہونگے۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
شکیل بدایونی 3 اگست 1916 ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔ 20اپریل 1970کو صرف ترپن برس کی عمر میں ممبئی میں شکیل بدایونی کا انتقال ہوا۔  جوش ملیح آبادی یا جاں نثار اختر کی طرح شکیل کو شاعری وراثت میں نہیں ملی تھی۔ ہاں بدایوں کا علمی ادبی ماحول شعر و سخن کے لئے سازگار تھا۔ ان کے ایک دور کے رشتہ دار ضیاء قادری اپنی نعتیہ شاعری کے لئے شہرت رکھتے تھے۔ نوجوان شکیل میں فطری جوہر موجود تھا، ضیاء قادری سے ترغیب ملی اور جب1936 ء میں صرف بیس برس کی عمر میں علی گڑ ھ مسلم یونیورسٹی پہنچے تو ان کی فطری شعری صلاحیت کو نکھرنے کا بھرپور موقعہ ملا۔ علیگڑھ میں دوران تعلیم وہ حکیم عبدالوحید اشک بجنوری سے اصلاح سخن لیتے رہے۔ علی گڑ ھ کی جن ادبی فضاؤں نے علی سردار جعفری، اسرار الحق مجاز، جاں نثار اختر، معین احسن جذبی اور علی جواد زیدی جیسے شاعروں کو پروان چڑھایا اسی فضا میں شکیل بدایونی کی نشو نما ہوئی۔ لیکن شکیل کا رحجان ترقی پسند شاعری کی جانب نہیں تھا۔ ان کے ہم عصر شاعر مزدوروں کسانوں پہ نظمیں لکھ رہے تھے، انقلاب کی باتیں کر رہے تھے، لیکن شکیل بدایونی رومانی فضاؤں میں کھوئے ہوئے تھے۔ انھی رومان پرور فضاؤں میں مشاعروں کے اسٹیج نے شکیل نام کے ایک نوجوان شاعر کو علمی ادبی حلقوں میں متعارف کرایا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد شکیل کو ایک چھوٹی سی ملازمت مل گئی اور وہ دہلی آگئے۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ مشاعروں میں ان کی شرکت بھی ہوتی رہی۔ مشاعروں کی مقبولیت نے انھیں پوری طرح شاعری میں ڈوب جانے کا موقعہ دیا۔ ملازمت چھوڑ دی او ر  1944ء میں بلاد العروس بمبئی (اب ممبئی) کا رخ کیا۔فلم نگری بمبئی  باہر سے آنے والوں کا پر تپاک خیر مقدم نہیں کرتی بلکہ امتحان لیتی ہے۔ جو اس امتحان میں پاس ہو جائے اسے یہ نگری عزت، شہرت، دولت سب کچھ عطا کرتی ہے۔ شکیل بدایونی کے لئے بھی راہ آسان نہ تھی۔ امتحان سے گزرنا پڑا۔ لیکن خوش قسمتی سے موسیقار اعظم نوشاد سے ملاقات ہو گئی اور پھر شکیل بدایونی نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔  </p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
اے آر کاردار اس زمانے کے مشہور فلم کار تھے۔ اور نوشاد علی بطور میوزک ڈائریکٹر اے آر کاردار کے لئے کام کرتے تھے۔  1944ء میں جب شکیل بدایونی بمبئی پہنچے تو اس وقت نوشاد علی بطور میوزک ڈائریکٹر اپنے قدم جما چکے تھے۔1940؁ء میں ریلیز ہوئی فلم”پریم نگر ”بطور میوزک ڈائریکٹر ان کی پہلی فلم تھی۔  1944ء میں اے آر کاردار کی فلم    ”رتن”کی بے پناہ مقبولیت نے نوشاد کو کامیابی کی بلندی پر پہنچا دیا۔ اسی برس جب شکیل بدایونی اے آر کاردار سے ملے تو انھوں نے نوشاد صاحب سے ملنے کو کہا۔ اس وقت کاردار صاحب فلم ”درد”بنانے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ کاردار اور نوشاد صاحب نے شکیل بدایونی سے دو مصروں میں درد کی کیفیت کو بیان کرنے کو کہا۔ حسبِ حکم شکیل بدایونی نے فی البدیع یہ شعرسنا دیا:</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
ہم  درد کا  افسانہ دنیا  کو سنا  دیں  گے</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
ہر دل میں محبت کی اک آگ لگا دیں گے</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
نوشاد علی جیسے جوہری کو ہیرے کی پہچان کرنے میں دیر نہیں لگی۔ انھوں نے فوراً شکیل بدایونی کو بطور نغمہ نگار اپنی فلم میں شامل کر لیا۔  1947 میں ریلیز فلم ”درد”کے نغمے بے حد مقبول ہوئے۔ بطور نغمہ نگار شکیل بدایونی کی یہ پہلی فلم تھی۔ اور بہت کم نغمہ نگار خوش قسمت ہوتے ہیں کہ ان کی پہلی فلم کامیاب ہو اور بطور نغمہ نگار وہ اپنی شناخت قائم کر لیں۔ شکیل بدایونی خوش قسمت تھے کہ پہلی فلم سے ملی پہچان انھیں بلندیوں پر لے گئی۔ فلم اداکارہ ٹُن ٹُن کا گانا ”افسانہ لکھ رہی ہوں دل بے قرار کا۔ آنکھوں میں رنگ بھر کے تیرے انتظار کا، ”تو سب کی زبان پر تھا۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد نوشاد علی اور شکیل بدایونی کی ایسی جوڑی بن گئی جس نے ہندوستانی سنیما کو ایک سے بڑھ کر ایک ہٹ نغمے دئے۔ ان دونوں نے فلم ”دیدار”بیجو باورا”مدر انڈیا”اور فلم  ” مغل اعظم ” میں ایک ساتھ کام کیا۔ ایک زمانے تک فلم کاروں کے ہاتھ ایک آزمودہ ہِٹ فارمولا لگ گیا تھا کہ شکیل بدایونی کے نغمے، نوشاد علی کی موسیقی اور محمد رفیع کی آواز فلم کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ نوشاد علی کے علاوہ شکیل نے روی اور ہیمنت کمار جیسے موسیقاروں کے ساتھ بھی کام کیا۔روی شرما کی موسیقی اور محمد رفیع کی آواز میں شکیل بدایونی کے گیت ”چودہویں کا چاند۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”کو 1961ء میں بیسٹ فلمی گیت کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ اس کے بعد1962؁ء اور  1963ء میں بھی انھیں بیسٹ فلمی گیت کے لئے فلم فئیر ایوارڈ سے نوازا گیا۔  1062ء میں فلم”گھرانہ”کے گیت حسن والے تیرا جواب نہیں پہ شکیل بدایونی کو فلم فئیر ایوارڈ ملا1961 میں بنی فلم ”گھرانہ”میں راجندر کمار، راج کمار اور آشا پاریکھ کی اداکاری، شکیل کے نغموں اور روی شرما کی موسیقی نے اس فلم کو سپر ہٹ ثابت کیا۔ شکیل بدایونی کے جس گیت کو فلم فئیر ایوارڈ ملا اس میں روی کی موسیقی اور محمد رفیع کی مخملی آواز کا کمال تو تھا ہی لیکن اصل کمال فلمی نغمے میں شاعری کا تھا۔ وہ نغمہ کچھ یوں تھا:</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
حُسن والے ترا جواب نہیں،</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
تو ہے ایسی کلی جو گلشن میں ساتھ اپنے بہار لائی ہو</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
تو ہے ایسی کرن جو رات ڈھلے چاندنی میں نہا کے آئی ہو</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
اگلے برس شکیل بدایونی کو ایک بار پھر فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ فلم تھی ”بیس سال بعد ”اور گیت ”کہیں دیپ جلے، کہیں دل، ذرا دیکھ لے آکر پروانے، تیری کون سی ہے منزل،میرا گیت میرے دل کی پکار ہے۔ جہاں میں ہوں وہیں تیرا پیار ہے، میرا دل ہے تیری محفل، ذرا دیکھ لے آکر پروانے، تیری کون سی ہے منزل ’’ ہیمنت کمار کی موسیقی اور لتا منگیشکر کی جادو بھری آواز نے اس گیت کو امر کر دیا۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
شکیل بدایونی اور نوشاد علی نے تقریباً بیس سال ایک ساتھ کام کیا۔ دونوں ایک دوسرے کے فن کے بڑے قدردان تھے۔ فلم کار وجئے بھٹ نے جب فلم”بیجو باورا ”بنانے کا ارادہ کیا تو یہ طے تھا کہ فلم کی موسیقی نوشاد دیں گے۔ لیکن وجئے بھٹ چاہتے تھے کہ فلم کے گیت پردیپ لکھیں۔ نوشاد نے کسی طرح وجئے بھٹ کو راضی کیا کہ وہ ایک بار شکیل بدایونی کے لکھے گیت سن لیں۔ اور جب وجئے بھٹ نے گیت سنے تو پھر فیصلہ شکیل بدایونی کے حق میں ہی ہونا تھا۔ اور اس کے بعد دنیا نے دیکھا کی فلم بیجو باورا کے گانے کس طرح عوام و خواص میں مقبول ہوئے۔ مینا کماری اور بھرت بھوشن پہ فلمائی گئی فلم بیجو باورا کے گیت میل کا پتھر ثابت ہوئے۔ اس میں ٹھمری اور دادرا جیسے راگ کا خوبصورت استعمال نوشاد  نے کیا ہے۔ اور شکیل بدایونی کا کمال ہے کہ انھوں نے خالص ہندی لفظوں کا استعمال کر کے شاہکار گیت لکھے۔ جیسے ” من تڑپت ہری درشن کو آج ”۔ اس فلم میں گیت سنگیت کے اتنے تجربات ہیں کہ موسیقی سے دلچسپی رکھنے والوں میں آج بھی اس فلم کی قدر و منزلت کم نہیں ہوئی ہے۔ گیت ”تو گنگا کی موج ”راگ بھیروی میں،گیت ”او دنیا کے رکھوالے ”راگ درباری میں اور گیت ”انسان بنو”راگ توڑی میں ہے۔ شکیل بدایونی نے ہندی چھندوں اور ہندی کے خوبصورت لفظوں کا استعمال کثرت سے کیا ہے۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
چھوڑ تمہارا دوار پربھو میں کس کے دوارے جاؤں</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
تم  بِن میرا کون سہارا،  کس  کی  آس  لگاؤں  </p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
شکیل بدایونی نے تقریباً نوّے  90فلموں کو اپنی نغمہ نگاری سے سجایا۔ نوشاد، روی، ہیمنت کمار، ایس ڈی برمن اور سی رام چندر جیسے ممتاز موسیقاروں کی دھُنوں پر سوا دو سو سے زائد گیت لکھے۔ ان کے گیتوں کو محمد رفیع، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، مکیش، شمشاد بیگم، ثریا، مہندر کپور، طلعت محمود، روی شنکر شرما، گیتا دت اور ہردئے ناتھ منگیشکر جیسے صفِ اول کے گلوکاروں نے اپنی آواز میں پیش کیا۔دلاری، دیدار ، مدر انڈیا، چودہویں کا چاند، مغلِ اعظم ، گنگا جمنا، صاحب بی بی اور غلام ، میرے محبوب،دو بدن جیسی سپر ہٹ فلموں میں شکیل بدایونی کے نغموں نے دھوم مچا دی تھی۔ فلم دو بدن میں آشا بھوسلے کی آواز میں یہ گیت آج بھی سننے والے پسند کرتے ہیں:</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
جب چلی ٹھنڈی ہوا، جب اٹھی کالی گھٹا</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
مجھ کو ائے جانِ وفا تم یاد آئے،</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
اسی طرح فلم مدر انڈیا  1957 میں ریلیز ہونے والی محبوب خان کی وہ فلم تھی جسے نرگس اور سنیل دت کی اداکاری، نوشاد کی موسیقی، محمد رفیع، لتا منگیشکر، منا ڈے اور شمشاد بیگم کی آواز اور شکیل بدایونی کی نغمہ نگاری نے اس وقت کی بہترین فلم کا خطاب عطا کیا۔ مدر انڈیا کے گیت آج بھی پسند کئے جاتے ہیں۔ </p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
جیون ہے اگر زہر تو پینا ہی پڑے گا</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
<span dir="LTR">1960</span>ء میں ریلیز ہوئی گرودت کی فلم ”چودہویں کا چاند”کے لگ بھگ سبھی گانے ہٹ ثابت ہوئے۔ گرودت، وحیدہ رحمن اور جانی واکر کی اداکاری اور روی کی موسیقی کے ساتھ ساتھ شکیل بدایونی کے نغموں نے دھوم مچائی۔ لتا منگیشکر کی آواز میں شکیل بدایونی کا یہ نغمہ پچپن سال گزرنے کے بعد آج بھی بے حد پسندکیا جاتا ہے۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
گھر کی بربادی کے آثار نظر آتے ہیں</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
اسی برس یعنی1960ء میں فلم مغلِ اعظم ریلیز ہوئی۔ کے آصف کی اس فلم کو ہندوستانی فلم کی تاریخ میں وہی مقام حاصل ہے جو ہندوستان کے نقشے پر تاج محل کو حاصل ہے۔ فلم مغلِ اعظم کی دوسری خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کے نغموں کی مقبولیت بھی خاص بات تھی۔ شکیل بدایونی کو نوشاد نے پوربی اتر پردیش کی ایک لوک گیت کی یاد دلائی اور شکیل نے نغمہ دیا:</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
جب پیار کیا تو ڈرنا کیا</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
پیار کیا کوئی چوری نہیں کی</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
چھپ چھپ آہیں بھرنا کیا</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
جب پیار کیا تو ڈرنا کیا</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
<span dir="LTR">1961</span>ء میں ریلیز ہوئی فلم گنگا جمنا دلیپ کمار کی کامیاب ترین فلموں میں سے ایک ہے۔ اس فلم کی کامیابی میں شکیل بدایونی کے گیتوں کا بھی بڑا اہم رول رہا۔ ہیمنت کمار کی آواز اور نوشاد کی موسیقی نے شکیل کے اس گیت کو امر کر دیا۔ آج بھی ملک بھر کے اسکولی بچے اس گیت کو گاتے ہیں:</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
انصاف کی ڈگر پہ بچوں دکھاؤ چل کے</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
یہ دیش ہے تمہارا نیتا تمہیں ہو کل کے</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
<span dir="LTR">1963</span>ء میں فلم کار اور ہدایت کار ایچ ایس رویل کی فلم میرے محبوب ریلیز ہوئی۔ فلم میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور لکھنؤ کا پس منظر تھا۔ شکیل بدایونی کے نغموں کی خوب پذیرائی ہوئی۔ محمد رفیع کی آواز میں شکیل کا یہ نغمہ:</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
میرے محبوب تجھے میری محبت کی قسم</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
پھر مجھے نر گسی آنکھوں کا سہارا دے دے</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
میرا کھویا ہوا رنگین نظارہ دے دے</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
میرے محبوب تجھے میری محبت کی قسم</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
فلمی نغمہ نگار شکیل بدایونی، شکیل بدایونی، ممبئی فلم نگری، نوشاد علی، نغمہ نگاری، فلمی گیت، فلم سازی، موسیقی</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
<strong>ڈاکٹر شفیع ایوب</strong></p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جواہرلعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی، (انڈیا) 110067</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
 </p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
 </p>

Dr. S.U. Khan

Dr. Shafi Ayub editor urdu

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago