شمشاد بیگم:مندر کی گھنٹیوں کا تقدس تھا جس کی آواز میں
ہندوستانی فلموں کی کھنکتی آواز: شمشاد بیگم
(23 اپریل، شمشاد بیگم کی یوم وفات پر بطور خراج عقیدت)
ڈاکٹر شفیع ایوب
ہندوستانی فلم انڈسٹری کو جن گلوکاروں نے اپنی آواز سے سجایا ہے، ان میں محمد رفیع، مکیش، کشور کمار اور منّا ڈے کے ساتھ ساتھ لتا منگیشکر، آشا بھونسلے اور شمشاد بیگم کا نام بھی سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ انھیں ناقابل فراموش فلمی ہستیوں میں سے ایک ہستی شمشاد بیگم کی بھی ہے۔ ”تیری محفل میں قسمت آزما کے ہم بھی دیکھیں گے“۔ ”کجرا محبت والا، انکھیوں میں ایسا ڈالا“ یا ”لے کے پہلا پہلا پیار“ جیسے سدا بہار گیتوں کو اپنی کھنک دار آواز بخشنے والی شمشاد بیگم 14 اپریل 1919کو پنجاب کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئیں۔ والد میاں حسین بخش نے بیٹی کا نام شمشاد رکھا۔ شمشاد اپنی منفرد کھنک دار آواز لے کے پیدا ہوئی تھیں۔ اسکول کے دنوں میں ہی ان کے اساتذہ نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ اس لڑکی کی آواز میں بلا کی کشش ہے۔ اس کی آواز کو کوئل کی کُوک کسی نے نہیں کہا۔ اس کی آواز میں ماں کی لوری جیسا پیار نہیں تھا لیکن اس کی آواز میں کسی جھرنے کی الہڑ، لاپرواہ روانی تھی۔ اس میں مندر میں بجنے والی گھنٹیوں کا تقدس تھا۔
1924میں جب شمشاد کی عمر ابھی صرف دس برس تھی ان کے اسکول کے پرنسپل نے ان کی آواز کی انفرادیت کو پہچان لیا۔ انہوں نے اسکول میں ہونے والے حمد و مناجات کے لیے شمشاد کو ہیڈ سنگر بنادیا۔ شمشاد کی منفرد آواز کی شہرت اسکول کی چار دیواری سے نکل کر آس پاس کے علاقوں میں پھیل گئی۔ اب وہ مذ ہبی تقریبات میں حمد و نعت پڑھنے کے لیے اور شادی بیاہ میں محفلوں میں پنجابی لوک گیت گانے کے لیے بلائی جانے لگیں۔ شمشاد کے والد میاں حسین بخش کو یہ سب پسند نہیں آیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شمشاد کے گانے کے ہی خلاف ہو گئے۔ حالانکہ شمشاد کی آواز کے وہ بھی قائل تھے۔ لیکن وہ اپنی بارہ تیرہ سال کی بیٹی کی بڑھتی ہوئی شہرت سے خوف زدہ تھے لیکن رفتہ رفتہ انہیں بھی اندازہ ہو گیا کہ شمشاد کے لیے گانا صرف گانا نہیں ہے بلکہ وہ اس کی زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔اگرچہ شمشاد کو موسیقی اور گائکی کی باقاعدہ تربیت نہیں ملی تھی لیکن ان کی خداداد صلاحیت میں یوں ہی دن بہ دن نکھار آتا گیا، رفتہ رفتہ ان میں موسیقی کا جنوں بڑھتا گیا۔ شمشاد کے ایک چچا قوالی اور غزل سرائی سے شوق رکھتے تھے۔انھوں نے اپنے بھائی یعنی شمشاد کے والد کو اس بات کے لیے آمادہ کر لیا کہ شمشاد گانے کا اپنا شوق پورا کر سکیں۔چچا شمشاد کو ساتھ لے کر امرتسر سے لاہور گئے۔ گیت سنگیت کی دنیا کے کئی بڑے استاد اس وقت لاہور میں موجود تھے۔ ان میں سے ایک بڑے نامی گرامی موسیقار غلام حیدر بھی تھے۔ چچا نے غلام حیدر سے شمشاد کا تعارف کرا دیا۔ پارکھی نظر نے ہیرے کو پہچان لیا۔ غلام حیدر نے شمشاد سے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی ایک غزل گانے کو کہا۔ شمشاد کی کھنکتی آواز میں بہادر شاہ ظفر کی غزل نے وہ جادو جگایا کہ غلام حیدر نے ایک ساتھ بارہ گانوں کے لیے شمشاد سے معاہدہ کرلیا۔ غلام حیدر جیسے بڑے موسیقار کا شمشاد جیسی نووارد کے ساتھ بارہ گانوں کامعاہدہ کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ شمشاد کی اس کامیابی پر دوسروں کے ساتھ ان کے والد میاں حسین بخش بھی بہت خوش ہوئے اور انھوں نے دو شرطوں کے ساتھ اپنی بیٹی کو اجازت دی کہ وہ گانے کے میدان میں آگے بڑھے۔ پہلی شرط یہ تھی کہ جب بھی ریکارڈنگ کے لیے جائے تو برقعہ اوڑھ کر جائے اور دوسری شرط یہ تھی کہ شمشاد کی تصویر اخبارات میں نہ شائع ہوں۔ یعنی وہ کسی صورت کیمرے کا سامنا نہ کرے۔ شمشاد اگرچہ ضدی تھیں اور اپنے ڈھنگ سے کام کرنے کی عادی بھی لیکن انھوں نے اپنے والد کی ان دونوں خواہشات کا احترام کیا۔
1937سے وہ لگاتار آل انڈیا ریڈیو کے پشاور اور لاہور مراکز سے گانے لگیں اور ان کی شہرت فلم انڈسٹری تک پہنچ گئی۔ ریڈیو پر ان کی آواز میں گیت سن کر لوگ دیوانہ وار آل انڈیا ریڈیو کو خطوط لکھتے، لیکن ان کے چاہنے والے، ان کی آواز کے لاکھوں مداح 1970تک ان کی تصویر نہیں دیکھ سکے تھے۔ کیوں کہ اپنے والد سے کیا وعدہ انھوں نے پورا کر کے دکھایا۔
گیت کے ساتھ ساتھ انھوں نے حمد، نعت، سلام، منقبت وغیرہ اپنی آواز میں ریکارڈ کرائے۔ دہلی کی مشہور دی کراؤن امپریل تھیٹریکل کمپنی نے بھی شمشاد کے گائے گیت اور غزلوں کے گراموفون ریکارڈ بازار میں اتارے۔ 1940کی دہائی میں شمشاد بیگم کے گراموفون ریکارڈ سب سے زیادہ قیمت پر بازار میں فروخت ہوتے تھے۔ 1941میں فلم ’خزانچی‘ اور 1942میں فلم ’خاندان‘ میں غلام حیدر صاحب نے بڑی خوبصورتی سے شمشاد بیگم کی آواز کا استعمال کیا۔ شمشاد بیگم کی آواز نے سب کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ 1940میں فلم ’یملا جاٹ‘ (Yamla Jatt)ریلیز ہوئی۔ بے حد کامیاب اس فلم نے ایک طرف اداکاری میں پران کی شناخت قایم کی تو دوسری طرف بطور موسیقارغلام حیدر اور بطور گلوکارہ شمشاد بیگم کی شناخت کو مستحکم کیا۔ اس کے بعد موسیقار اور گلوکارہ کی اس جوڑی نے پے در پے ’زمیندار‘، ’پونجی‘ اور ’شمع‘ جیسی ہٹ فلمیں دیں۔ ان تمام فلموں کی کامیابی میں شمشاد بیگم کی کھنک دار آواز کا بڑا عمل داخل تھا اور اسی وجہ سے اس وقت فلم انڈسٹری میں سب سے زیادہ فیس لینے والی گلوکارہ کے طور پر شمشاد بیگم کا نام ابھر کر سامنے آیا۔
1943میں فلم ہدایت کار محبوب خان نے ”تقدیر“ بنانے کا فیصلہ کیا تو بطور اداکارہ نرگس اور بطور گلوکارہ شمشاد بیگم کا انتخاب کیا۔ محبوب خان جیسے بڑے اور کامیاب فلم ہدایت کار کے ساتھ کام کرنے کی حسرت بھلا کون نہیں رکھتا۔ لیکن شمشاد بیگم کے لئے یہ اہم نہیں تھا کہ وہ کس کے ساتھ کام کر رہی ہیں بلکہ ان کے لئے یہ اہم تھا کہ ان کا کام کتنا اچھا رہا۔ وہ اپنے من میں ڈوب کر گاتی تھیں۔ گانا ان کے لئے اپنے اندرون میں ڈوبنے کا نام تھا۔ وہ اپنے گانوں میں ڈوب کر سراغ زندگی پا لیتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان گانوں کے سننے والے ان کی آواز کی کھنک میں ڈوب کر درد و داغ، جستجو و آرزو سے بے نیاز ہو جاتے تھے۔
شمشاد بیگم کا شمار ہندوستانی سنیما کی ان خوش نصیب فن کاروں میں ہوتا ہے جنھیں عوام کے ساتھ ساتھ خواص نے بھی بے حد پسند کیا ہے۔ وہ ہندوستانی فلم انڈسٹری کے پہلے دور کی پلے بیک سنگر ہیں۔ انھوں نے ہندی اردو کے علاوہ پنجابی، بنگالی، تمل، مراٹھی اور گجراتی جیسی کئی علاقائی زبانوں میں 6ہزار سے زیادہ گانے گائے ہیں۔ انھوں نے ایس ڈی برمن اور نوشاد علی جیسے مایا ناز موسیقاروں کی دھنوں کو اپنی کھنکھناتی آواز سے سجایا ہے۔ ہندوستان کی آزادی اور ملک کی تقسیم سے پہلے انھوں نے رفیق غزنوی، امیر علی، پنڈت امر ناتھ، اور ایم اے مختارجیسے اعلیٰ درجے کے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا تھا۔ لیکن تقسیم وطن کے بعد انھوں نے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ ان کا زیادہ تعلق پشاور اور لاہور سے رہا، لیکن ان کی رگوں میں گنگا جمنا کی دھارائیں ایک ساتھ بہتی تھیں۔ مشترکہ تہذیب کی وہ ایک زندہ مثال تھیں۔ ہندوستان اور ہند وستانیت ان کی آتما تھی۔ جن لوگوں نے شمشاد بیگم کے ساتھ کام کیا ہے وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ بیگم کا دل نور سے بھرا تھا۔ اسی لئے جب وہ گاتی تھیں تو فضاؤں میں نور بکھر جاتا تھا۔ ایک چھناکے کے ساتھ ہر سمت ایک روشنی بکھرتی نظر آتی تھی۔ اپنے زمانے کی مشہور گلوکارہ مبارک بیگم کا کہنا ہے کہ شمشاد آپا اپنے اندر کی خوشی کو باہر نکالنے کے لئے گایا کرتی تھیں۔ ان کے ہم عصروں میں امیر بائی کرناٹکی، نور جہاں، ثریا، مبارک بیگم اور گیتا دت جیسی گلوکارائیں اپنا خاص مقام رکھتی تھیں لیکن ان سب میں جو آواز سب سے منفرد تھی، جس آواز میں سب سے زیادہ جھنکار تھی، سب سے زیادہ صفائی تھی وہ آواز شمشاد بیگم کی تھی۔ 1940سے 1955تک کے زمانے کو ان کے عروج کا زمانہ کہتے ہیں۔ 1955میں اپنے شوہر کو ایک سڑک حادسے میں کھو دینے کے بعد شمشاد بیگم نے گانا چھوڑ دیا تھا۔ 1955 میں شوہر کی موت کے بعد یہ آواز خاموش ہوئی تو ملک بھر میں ان کے مداح بے حد مایوس ہوئے۔ لیکن انھوں نے خود کو سنبھالا اور دو سال بعد 1957میں دوبارہ گانا شروع کیا۔ 1970تک وہ اپنی آواز کا جادو جگاتی رہیں۔ اس کے بعد ایک طرح کی گوشہ نشینی اختیار کر لی۔
نوشاد جیسے عظیم موسیقار نے بار بار اعتراف کیا کہ فلم انڈسٹری میں ان کا جو مقام ہے اس میں شمشاد بیگم کی آواز کو بڑا دخل ہے۔ نوشاد جب گمنامی کے اندھیروں میں بھٹک رہے تھے اس وقت شمشاد بیگم شہرت کی بلندیوں پر تھیں۔ 1940کی دہائی میں شمشاد بیگم نے نوشاد کے لئے جو گیت گائے وہ بے حد مقبول ہوئے۔ اس طرح نوشاد کی مقبولیت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔ بعد میں جب نوشاد کو بے پناہ کامیابی ملی اور وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچے تو انھوں نے بہت سے نئے گلوکاروں کو موقعہ دیا لیکن وہ شمشاد بیگم کی طرف سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ اپنے زمانے کی سپر ہٹ فلم ”مدر انڈیا“ کے لئے ایک دو نہیں بلکہ چار گیت شمشاد بیگم کی آواز میں ریکارڈ کئے۔ ان کی آواز میں رنگا رنگی بہت تھی۔ اپنے زمانے کے مشہور موسیقار سی رام چندرن نے مغربی طرز کی دھُن بنائی۔ اس وقت ہماری فلم انڈسٹری میں یہ طریقہ بہت عام نہیں تھا۔ لیکن سی رام چندرن کی دھن کو شمشاد بیگم نے اپنی آواز سے سجا کر ”میری جان۔۔۔ سنڈے کے سنڈے“ جیسا مقبول گانا دیا۔ ایس ڈی برمن اگرچہ بنگالی فلموں میں بطور موسیقار جگہ بنا چکے تھے۔ لیکن قومی سطح پر ان کی پہچان 1946کے بعد اس وقت بن سکی جب ان کی تیار کردہ دھن پر فلم ”شکاری“ کے لئے شمشاد بیگم نے ’کچھ رنگ بدل رہی ہے‘ جیسا سدا بہار گیت گایا۔ اس کے بعد 1949میں برمن کے لئے ہی شمشاد بیگم نے مکیش کے ساتھ فلم ’شبنم‘ کے گیت گائے۔
ایس ڈی برمن کی زندگی میں فلم ”شبنم“ کی بڑی اہمیت رہی۔ اس فلم کی کامیابی نے برمن کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ کامنی کوشل کی اداکاری اور شمشاد بیگم کی کھنک دار آواز نے ”یہ دنیا روپ کی چور“ جیسے گانے کو امر کر دیا۔ اس کے علاوہ برمن نے فلم ’بازار‘، ’مس انڈیا‘، ’بہار‘، اور ’شہنشاہ‘ کے گیت شمشاد بیگم کی آواز میں ریکارڈ کئے۔ نوشاد اور ایس ڈی برمن کے علاوہ او پی نیر نے بھی شمشاد بیگم کی آواز کا خوبصورت استعمال کیا۔ او پی نیر اکثر کہا کرتے تھے کہ بیگم کی آواز مندر کی گھنٹیوں جیسی ہے۔ شمشاد بیگم نے او پی نیر کے لئے ”اب تو جی ہونے لگا“، ”ذرا پیار کر لے“ اور ”سیّاں تیری آنکھوں میں“ جیسے سدا بہار گیتوں کو آواز دی۔ ہندوستانی فلموں نے کچھ ایسے لازوال نغمے دیے ہیں جنھیں اب چوتھی نسل پسند کر رہی ہے۔ ایسے لازوال اور ہر دور میں پسند کئے جانے والے گیتوں میں زیادہ تر شمشاد بیگم کی آواز میں ہیں۔ محمد رفیع کے ساتھ شمشاد بیگم نے ”چھلا دے جا نشانی“ جیسا لازوال گیت گایا۔ فلم مغل اعظم میں نگار سلطانہ پر فلمایا گیا وہ گانا ”تیری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے“ بھلا کون بھول سکتا ہے۔ موسیقی کے ماہرین کا خیال ہے کہ ’میرے پیا گئے رنگون‘ اور ’چھلّا دے جا نشانی‘ جیسے لازوال گیت صرف شمشاد بیگم ہی گا سکتی تھیں۔انھوں نے کشور کمار کے ساتھ ’گوری کے نینوں میں نندیا بھری‘ جیسا خوبصورت گیت گایا۔ ان کا گایا گیت ’کجرا محبت والا‘ آج بھی اسی قدر مقبول ہے جس قدر 1969میں فلم ’قسمت‘ کے ریلیز ہونے کے وقت مقبول تھا۔ ’لے کے پہلا پہلا پیار‘، ’ کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ‘، اور ’ریشمی شلوار کرتا جالی کا‘ ایسے گیت ہیں جو آج بھی سننے والوں پر جادو سا اثر کرتے ہیں۔ ہندوستانی فلم انڈسٹری کو ڈھیروں سدا بہار نغمے دے کر، زندگی کی 94بہاریں دیکھ کر، 23اپریل 2013کو شمشاد بیگم اس دار فانی سے کوچ کر گئیں۔ لیکن ان کی کھنک دار آواز آج بھی اپنا جادو جگا رہی ہے۔
(مضمون نگار ڈاکٹر شفیع ایوب، ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جے این یو، نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں)