سری نگر، 22؍ مارچ
جس طرح کشمیر کے نوجوان تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی، آرٹ، ادب، کھیل اور گانے میں قابل ستائش کام کر رہے ہیں، یہاں ایک 31 سالہ ریپر کی ایک اور کامیاب کہانی سامنے آئی ہے، جس کی دھنیں اور الفاظ وادی میں دھوم مچا رہے ہیں۔
۔ 31 سالہ میر غضنفر، جس کا اسٹیج کا نام ایس ایکس آرکی ہے، 2011 سے ریپ کر رہا ہے۔ کشمیری اور انگریزی میں لکھا گیا ایک رومانوی گانا ‘ ماما لو گو (ماما پیار ہوگا( نے غضنفر کو بطور ریپر لانچ کیا۔ تب سے، ایس ایکس آرکی نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
غضنفر نے کہا ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے والدین سے متاثر ہوئے۔ انہیں معاشرے کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ریپر نے کہاتاہم، آج نہ صرف میرے والدین بلکہ میرے دوست بھی کافی خوش ہیں۔
اپنے اسکول کے زمانے سے ہی میر غضنفر اپنے اردگرد کے واقعات اور گزرے ہوئے لمحات کو اپنے انداز میں ریکارڈ کرتے تھے لیکن انہیں ریپ کی شکل میں لکھنے کی ترغیب مقامی ریپر ایم سی کیش سے ملی۔ ریپر بننے کی خواہش اور جذبے کو پروان چڑھاتے ہوئے غضنفر موسیقی کی تربیت لینے دہلی چلے گئے اور ریپ کا مکمل کوڈ سیکھا۔
اگرچہ دہلی میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انہوں نے بے مثال ہمت کے ساتھ تمام مشکلات پر قابو پا کر اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی اور آج وہ وادی کے ہپ ہاپ گلوکاروں میں سے ایک ہیں۔ ان کے ریلیز ہونے والے البمز نے ایک نشان چھوڑا ہے۔میر غضنفر کا تعلق جموں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر سے ہے اور اس نے اپنا داخلہ انجینئرنگ کے طالب علم کے طور پر کرایا۔ وہ اپنی پڑھائی مکمل نہیں کر سکا ہے۔
غضنفر نے اپنے بکھرے ہوئے خیالات کو قلم بند کیا، اردگرد کے ماحول کو اپنے انداز میں لکھا اور پھر اسے موسیقی کے ساتھ ریپ کی صورت میں پیش کیا۔
موسیقی کے شائقین ایس ایکس آرکی کے کام کو سراہ رہے ہیں۔ “زرمنہ دور”، “کاشر نظام”، “شُلخ” اور “شہزار” ان کے کچھ البم ہیں جو بہت مقبول ہوئے اور وہ اس وقت اپنی نئی ویڈیو پر کام کر رہے ہیں جو بہت جلد ریلیز کی جائے گی۔ ایس ایکس آرکی سے متاثر ہو کر، بہت سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اب کشمیر میں ریپر بن کر ابھر رہے ہیں۔
ریپ دراصل امریکی سیاہ فام فنکاروں کے مزاحمتی فن کا ایک نمونہ ہے جسے اب پوری دنیا میں لیا جاتا ہے۔ موسیقی کی اس صنف کے ذریعے، فنکار اکثر اپنے خیالات اور ماضی کے حالات کو تیز دھنوں کے ساتھ گانوں کے ذریعے بیان کرتے ہیں اور خود کو اداروں کے خلاف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔