صحت

پروفیسر ابن کنول کی رحلت پر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تعزیتی نشست کا انعقاد

پروفیسر ابن کنول اگرچہ دہلی یونیورسٹی کے استاذ تھے لیکن شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ان کا گہرا تعلق تھا۔ جامعہ ملیہ کی کئی سلیکشن کمیٹیوں اور وائیوا میں وہ ممتحن کی حیثیت سے شریک رہے۔ ان کے چند دوست تو یہ بھی کہا کرتے تھے کہ آپ دہلی یونیورسٹی کے استاذ کم جامعہ ملیہ کے زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔ ان کی رحلت نے سارے اردو معاشرے کو غم زدہ کردیا ہے۔ان خیالات کا اظہار ابن کنول کے سانحۂ ارتحال پر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقدہ تعزیتی جلسے میں صدرِ شعبہ پروفیسر احمد محفوظ نے کیا۔

اس موقعے پر پروفیسر خالد محمود نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابن کنول کی موت کو ادبی دنیا نے ذاتی غم کے طور پر محسوس کیا ہے۔ انھوں نے زندگی کے آخری لمحے تک اردو زبان و ادب سے اپنا رشتہ استوار رکھا۔

وہ نیک، شریف اور باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ پروفیسر شہزاد انجم نے اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی موت اردو ادب کے لیے کسی بڑے خسارے سے کم نہیں۔

 سبکدوشی کے بعد ان کی ادبی تخلیقات جس تیز رفتاری کے ساتھ منظر عام پر آئیں وہ قابل دید ہیں۔ ان کی زود نویسی کو دیکھ کر کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ نہایت عجلت میں بہت سارے کام ایک ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔جلسے میں پروفیسر خالد جاوید نے ابن کنول کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اچانک موت نے میرے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

ان کی موت اندیشوں سے خالی موت تھی۔ اس موقعے پروفیسر ندیم احمد نے کہا کہ ابن کنول ایک مشفق استاذ اور نیک انسان تھے۔ ان کی طبیعت بذلہ سنج اور خوش مزاج واقع ہوئی تھی۔ وہ طالب علموں کی بھلائی اور بہتری کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے۔ پروفیسر عمران احمد عندلیب نے مرحوم کی بہت سی یادیں بیان کرتے ہوئے انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔ پروفیسر سرورالہدیٰ نے اس موقعے پر کہا کہ وہ بنیادی طور پر نثر کے آدمی تھے اور نثری اسالیب پر ان کی گہری نظر تھی۔

 ڈاکٹر شاہ عالم نے کہا کہ ابن کنول نے بہتوں کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا لیکن کبھی جتایا نہیں۔ وہ دوسروں کا بہت خیال کرتے تھے۔ ڈاکٹر خالد مبشر نے ان کی خوش خلقی، خوش طبعی اور شفقت و محبت کے حوالے سے انھیں یاد کیا۔ ڈاکٹر سید تنویر حسین نے کہا کہ وہ شاگردوں کے تعلق سے بہت فکر مند رہا کرتے تھے۔ ڈاکٹر محمد مقیم نے مرحوم کی شخصی خوبیوں کو یاد کرتے ہوئے ان کے لیے دعائے مغفرت کی۔ ڈاکٹر محمد آدم نے مرحو کی خاکساری اور شفقت و محبت کا ذکر کیا۔ جلسے کا اختتام ڈاکٹر مشیر احمد کی تعزیتی قرار داد پر ہوا۔

اس جلسے میں ممتاز شاعر اور ڈراما نگار امجد اسلام امجد اور عہد حاضر کے مقبول ترین بلند خواں ضیا محی الدین کی رحلت پر بھی حاضرین نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ جلسے میں ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی، ڈاکٹر شاہ نواز فیاض، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر روبینہ شاہین زبیری، ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر راہین شمع، ڈاکٹر غزالہ فاطمہ اور ڈاکٹر خوشتر زریں ملک موجود تھے۔

Dr M. Noor

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago