Urdu News

عالم اسلام کی عبقری شخصیت علامہ یوسف القرضاوی کا انتقال

عالم اسلام کی عبقری شخصیت علامہ یوسف القرضاوی

عالم اسلام کی مایہ نازشخصیت، معروف مذہبی مبلغ اور ممتاز عالم دین علامہ یوسف القرضاوی کاعلالت کے بعد 96 سال کی عمر میں آج انتقال ہو گیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق معروف عالم دین اور اخوان المسلمین سے وابستہ علامہ یوسف القرضاوی انتقال کرگئے۔ انھیں گزشتہ برس کورونا ہوا تھا اور وہ صحت یاب ہوگئے تھے تاہم چند ماہ سے کافی علیل تھے۔

  یوسف القرضاوی 1926 کو پیدا ہوئے اور مصر میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ اخوان المسلمین سے وابستہ ہوئے اور عملی جدوجہد میں حصہ لیا جس کی پاداش میں 1950 کو جمال عبدالناصر کے دور میں گرفتار بھی ہوئے۔

علامہ یوسف القرضاوی 1960 کی دہائی کے اوائل میں مصر سے قطر کے لیے روانہ ہوئے اور قطر یونیورسٹی میں فیکلٹی آف شریعہ کے ڈین کے طور پر خدمات انجام دیں جس کی بنیاد پر انھیں 1968 قطری شہریت دی گئی۔

  آپ کا تعلق مصر سے ہے لیکن گزشتہ چار دہائی سے وہ قطر میں قیام پذیر تھے۔ علامہ القرضاوی ایک سوسے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ اکثر کتابوں کے ترجمے دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں۔

اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی آپ کے چاہنے والے لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ علامہ القرضاوی کے معتقدین ومحبین کا ایک بڑا حلقہ ہے جو عرب ممالک سے لے کر یورپ، امریکہ اور برصغیر تک پھیلا ہوا ہے۔ آپ کو دنیا بھر میں مجتہد، مجدد اور مفکر کی حیثیت سے جاناجاتا ہے۔

اسلامی اسکالر، فقیہ اور عالم دین

مجموعی طور پر اس وقت عالم اسلام میں  بڑے اسلامی اسکالر، فقیہ اور عالم دین کی حیثیت آپ کو حاصل ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصرکی جانب سے قطر کا سفارتی بائیکاٹ کیے جانے کے بعد مذکورہ ممالک نے شدت پسند رہنماؤں کی ایک فہرست جاری کی ہے جس میں 59 نمایاں شخصیات اور بارہ خیراتی اداروں کے نام شامل تھے، ان میں علامہ یوسف القرضاوی کا نام سرفہرست تھا۔

علامہ یوسف القرضاوی کی زکوۃ، اسلامی قوانین

فروری 2011 کو قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں لاکھوں افراد کے اجتماع سے خطاب کیا تھا اوراس انقلاب کو تحریک دی تھی۔علامہ یوسف القرضاوی کی زکوۃ، اسلامی قوانین کی تشریح اور اسلامی نظام کے نفاذ سے متعلق درجنوں کتابوں  کے مصنف ہیں جو عالمی شہرت کی حامل ہیں اوراسلامی جدوجہد کرنے والوں کے لیے ان کی کتابیں مشعل راہ ثابت ہوئیں ہیں۔عالم اسلام میں علامہ کی باتیں اور ان کی تحریریں کافی اہمیت کی حامل تھیں۔

Recommended