اردو کے معروف افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، خاکہ نگار، ناقد اور محقق پروفیسر ابن کنول (ناصر محمود کمال) کے انتقال پر آج اردو اکادمی، دہلی کے دفتر میں ایک تعزیتی نشست منعقد کی گئی، جس میں اکادمی کے جملہ اسٹاف شریک تھے۔
اس موقع پر سکریٹری اردو اکادمی، دہلی محمد احسن عابد نے اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر ابن کنول کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا، آپ کے والد کنول ڈبائیوی ایک قومی شاعر تھے، اسی مناسبت سے آپ نے اپنا قلمی نام ابن کنول تجویز کیا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔
پروفیسر ابن کنول، سابق صدر شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی کے سینئر استاد کی حیثیت سے طلبہ واساتذہ میں یکساں مقبول تھے۔ ان کی نگرانی میں تقریباً 38 پی ایچ ڈی اور ایم فل کے مقالے تحریر کیے گئے۔وہ دہلی یونی ورسٹی میں تقریباً 37 سال درس و تدریس سے وابستہ رہے اور پچھلے سال سینئر پروفیسر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے،اب ان کے جونیئر اساتذہ اور ان کے نگرانی میں پی ایچ ڈی اور ایم فل کرنے والے اسکالرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے کام کو آگے بڑھائیںاور ان کا نام مزید روشن کریں۔اردو ادب کے لیے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔
اردو کی خدمت کے حوالے سے ہی وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں وائیوا کے لیے گئے تھے جہاں انھیں دل کا دورہ پڑا اورانھیں فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جاںبر نہ ہوسکے اور اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے۔ ان کی تقریباً دو درجن سے زیادہ کتابیں منظرِعام پر آچکی ہیں جن میں تحقیق و تنقید، افسانے، ڈرامے، خاکے اور انشائیے شامل ہیں۔انھیں داستان کی تنقید میں ایک امتیاز حاصل تھا۔ ہم عصر افسانہ نگاروں میں جن لوگوں نے اپنے منفرد لب و لہجہ کی وجہ سے اردو دنیا میں اپنی پہچان بنائی ہے ان میں پروفیسر ابن کنول کا نام سر فہرست تھا۔
ابن کنول کے افسانوں کی سب سے اہم خصوصیت جو ان کو دوسرے افسانہ نگاروں سے ممتاز کرتی ہے وہ داستانوی رنگ و آہنگ ہے۔ ابن کنول کے افسانوں میں داستانوی ادب کے اثرات بہت واضح نظر آتے ہیں۔
داستان ان کا پسندیدہ موضوع رہا ہے،اسی وجہ سے داستانوی زبان ان کی لفظیات پر حاوی رہی ہیں۔سکریٹری اکادمی نے کہا کہ اردو اکادمی، دہلی سے ان کا رشتہ اکادمی کے ابتدائی دنوں سے ہی بہت گہرارہا ہے۔ اکثر سمیناروں اور دیگر پروگراموں میں انھیں مدعو کیا جاتا تھا اور ان کے مشوروں پر غور کیا جاتا تھا۔ اردو اکادمی، دہلی نے 2008 میں انھیں اکادمی کا تخلیقی نثر کا ایوارڈ پیش کیا تھا۔
اکادمی نے گزشتہ سال ان سے داغ دہلوی پر مونوگراف لکھنے کی گزارش کی تھی جسے انھوں نے قبول کرکے اکادمی کو بروقت برائے اشاعت بھجوادیا تھا۔یہ مونوگراف طباعت کے مراحل میں ہے۔ اس موقع پر اکادمی کے سکریٹری اور اسٹاف نے ان کے لیے دعائے مغفرت کی اور لواحقین کے لیے اللہ تعالیٰ سے صبر جمیل کی دعا کی۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…