Urdu News

کورونا ویکسین، فتویٰ اور ہندوستانی مسلمان

Covid 19 Vaccination Fatwa and Indian Muslims

 کورونا ویکسین، فتویٰ اور ہندوستانی مسلمان 

کورونا ویکسین کو لے کر کچھ علمائے کرام نے اپنی رائے دی۔ میڈیا نے اس کو ویکسین کے خلاف فتویٰ قرار دیا۔ کبھی کسی عالم دین کا نام سامنے آیا تو کبھی کسی اسلامی اکیڈمی کا نام سامنے آیا۔ کورونا ویکسین کا ٹرائل ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں میں اس کے استعمال کو لے کر غلط فہمی پھیلنے لگی۔ اُردو میڈیا نے بھی اس موضوع پر کوئی خاطر خواہ رہنمائی نہیں کی۔ ہندوستانی مسلمان اپنی عادت کے مطابق کچھ زیادہ ہی پریشان نظر آئے۔ افواہیں بھی گردش کرنے لگیں۔ افواہیں کون پھیلاتا ہے اور افواہوں سے کون متاثر ہوتا ہے؟ یہ حقیقت اہل نظر سے پوشیدہ نہیں۔ 
اسی درمیان میں ۶۱ جنوری کو ملک بھر میں دھوم دھام سے کورونا ویکسین لگانے کا کام شروع ہوا۔ وزیر اعظم نرندر مودی نے اس مہم کا آغاز کیا۔ دہلی کے مشہور زمانہ ہسپتال ایمس میں وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن خود موجود تھے۔ ایک صفائی ملازم کو ایمس میں پہلا ڈوز دیا گیا۔ دوسری طرف افواہیں گردش کرتی رہیں۔ حکومت ہند تمام ہندوستانیوں کو یقین دلاتی رہی کہ ویکسین پوری طرح محفوظ ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے درمیان ہندوستانی مسلمانوں کے شک وشبہات کو لے کر ماحول گرم رہا۔ 
انڈیا نیریٹوکو بھی تشویش تھی۔ ہم نے ملک بھر کے کچھ ممتاز مسلم اسکالرس سے بات کی۔ ان ممتاز مسلم اسکالرس میں نوجوان عالم دین مولانا محمد حسین شیرانی بھی ہیں اور ہمارے نہایت اہم بزرگ اسکالر، ادیب و صحافی ڈاکٹر عبد السمیع بوبیرے بھی ہیں۔ ہم نے مولانا صہیب احمد قاسمی، مولانا نیاز احمد، مولانا محمد باقر نعیمی اور مولانا تابش قاسمی سے بھی بات کی۔  
 
مولانا محمد حسین شیرانی ایک نوجوان عالم دین اور اسکالر ہیں۔ وہ ایک مشہور سینٹرل یونیورسٹی میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ سے بھی وابستہ ہیں۔ ملک کے معتبر اخبارات میں مولانا محمد حسین شیرانی کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ وہ نئی
 
 
ملک میں کورونا ویکسین کے بارے میں جو ہنگامہ برپا ہوا ہے وہ
صرف افواہ ہے ، ممبئی میں ایک مسلم تنظیم کی جانب سے یہ بحث چلائی گئی ہے کہ ہندوستان میں آنے والی ویکسین میں سور کا گوشت بھی شامل ہے اس الزام سے ایک نئی چیز سامنے آئی ہے جو بے بنیاد ہے ۔
تاہم ، یہ سوال انڈونیشیا سے پیدا ہوا جہاں چین میں تیار کی جانے والی کورونا ویکسین استعمال کی جانی ہے جس میں کہا جارہا ہے کہ یہ ویکسین اسلام میں حرام سور کا گوشت بیسڈ جیلیٹن استعمال کرتی ہے ، لہذا یہی وجہ ہے کہ مسلمان اسے حاصل نہیں کرسکتے اور یہ بحث ہمارے ملک میں پہنچی جبکہ ہم نے ابھی تک چین میں تیار کی گئی ویکسین درآمد کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے اس لیے اس بحث کا ہمارے ملک میں کوئی جواز نہیں ہے۔
لیکن یہ ضروری ہے کہ ویکسین کی جو ترکیب ہندوستانی عوام کو دی جانی ہے وہ لوگوں کو بتائی جائے ، ان کا جاننا ان کا حق ہے ، اگر ایسی بات کہی جارہی ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ پیکنگ پر ہر دوا کا استعمال ہوتا ہے۔
کسی کو بھی اس کو تنازعہ کا موضوع بنانے کا کام نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس وقت اس وبا سے نمٹنے کے لئے جو بھی ضروری ہے کرنا چاہیے ، اس وقت جان کی حفاظت فرض ہے اور اگر زندگی بچانا ہو اور کوئی اور متبادل نہیں ہے تو پھر اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں. لہذا پہلے اس کی تحقیقات ہونی چاہئیے اور پھر موضوع بحث بنانا چاہیے.
اس سے پہلے بھی ایسے ہی تنازعات ہوتے رہے ہیں جب یہ بات آئیورویدک دوائی کمپنی کی مصنوعات میں انسانی ہڈیوں کے استعمال کی بات کی گئی تھی ، ایسے میں اس کی اطلاع دینا ضروری ہے کیونکہ یہ مذہبی عقیدے کا بھی سوال ہے اور اگر کوئی آپشن موجود ہے جس میں اس طرح کا عنصر شامل نہیں ہے تو پھر اسے حاصل کرنا درست ہے ورنہ اس وبا سے نمٹنے کے لئے سب کو غور و فکر کرنا ہوگا. ایسی صورتحال میں کسی بھی طرح کا تنازعہ کھڑا کرنا مناسب نہیں ہوگا ، اگر کوئی سوال اٹھایا جاتا ہے تو اس کی حقیقت بھی بتانی ہوگی، اس سے معاشرے میں اعتماد بڑھتا ہے اور سوال کا جواب نہ ملنے پر الجھن میں اضافہ ہوتا ہے۔

 
ملک میں کورونا ویکسین کے بارے میں جو ہنگامہ برپا ہوا ہے وہ
صرف افواہ ہے ، ممبئی میں ایک مسلم تنظیم کی جانب سے یہ بحث چلائی گئی ہے کہ ہندوستان میں آنے والی ویکسین میں سور کا گوشت بھی شامل ہے اس الزام سے ایک نئی چیز سامنے آئی ہے جو بے بنیاد ہے ۔
تاہم ، یہ سوال انڈونیشیا سے پیدا ہوا جہاں چین میں تیار کی جانے والی کورونا ویکسین استعمال کی جانی ہے جس میں کہا جارہا ہے کہ یہ ویکسین اسلام میں حرام سور کا گوشت بیسڈ جیلیٹن استعمال کرتی ہے ، لہذا یہی وجہ ہے کہ مسلمان اسے حاصل نہیں کرسکتے اور یہ بحث ہمارے ملک میں پہنچی جبکہ ہم نے ابھی تک چین میں تیار کی گئی ویکسین درآمد کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے اس لیے اس بحث کا ہمارے ملک میں کوئی جواز نہیں ہے۔
لیکن یہ ضروری ہے کہ ویکسین کی جو ترکیب ہندوستانی عوام کو دی جانی ہے وہ لوگوں کو بتائی جائے ، ان کا جاننا ان کا حق ہے ، اگر ایسی بات کہی جارہی ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ پیکنگ پر ہر دوا کا استعمال ہوتا ہے۔
کسی کو بھی اس کو تنازعہ کا موضوع بنانے کا کام نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس وقت اس وبا سے نمٹنے کے لئے جو بھی ضروری ہے کرنا چاہیے ، اس وقت جان کی حفاظت فرض ہے اور اگر زندگی بچانا ہو اور کوئی اور متبادل نہیں ہے تو پھر اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں. لہذا پہلے اس کی تحقیقات ہونی چاہئیے اور پھر موضوع بحث بنانا چاہیے.
اس سے پہلے بھی ایسے ہی تنازعات ہوتے رہے ہیں جب یہ بات آئیورویدک دوائی کمپنی کی مصنوعات میں انسانی ہڈیوں کے استعمال کی بات کی گئی تھی ، ایسے میں اس کی اطلاع دینا ضروری ہے کیونکہ یہ مذہبی عقیدے کا بھی سوال ہے اور اگر کوئی آپشن موجود ہے جس میں اس طرح کا عنصر شامل نہیں ہے تو پھر اسے حاصل کرنا درست ہے ورنہ اس وبا سے نمٹنے کے لئے سب کو غور و فکر کرنا ہوگا. ایسی صورتحال میں کسی بھی طرح کا تنازعہ کھڑا کرنا مناسب نہیں ہوگا ، اگر کوئی سوال اٹھایا جاتا ہے تو اس کی حقیقت بھی بتانی ہوگی، اس سے معاشرے میں اعتماد بڑھتا ہے اور سوال کا جواب نہ ملنے پر الجھن میں اضافہ ہوتا ہے۔
نسل کے نہایت ذہین اور سلجھے خیالات کے حامل اسکالر ہیں۔ مولانا محمد حسین شیرانی کی رائے کا احترام کیا جانا چاہئے۔ ان کا خیال ہے۔ 
ممبئی میں مقیم سینیئر صحافی اور دانشور ڈاکٹر عبد السمیع بوبیرے کا شمار ملک کے ممتاز اسکالرس میں ہوتا ہے۔ بین مذاہب مطالعہ ان کا خاص میدان ہے۔ انٹر فیتھ کی جب بھی بات آتی ہے تو ڈاکٹر عبد السمیع بوبیرے کو ضرور یاد کیا جاتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں ڈاکٹر عبد السمیع بوبیرے نے ہندوستان کی نمائندگی کی ہے۔ 
لفظ فتویٰ کے استعمال کو لے کر ڈاکٹر عبدالسمیع بوبیرے کا کہنا ہے کہ ہمیں اس لفظ کے استعمال سے بچنا چاہئے۔ وہ ان طبی معاملات میں مولوی حضرات کی رائے کو اہمیت نہ دینے کی اپیل کرتے ہیں۔ بوبیرے صاحب کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں جب پولیو ڈراپ پلانے کی مہم چلی تھی تب بھی اس کی مخالفت ہوئی تھی۔ اس سے بھی پہلے جب چیچک اور طاعون کے ٹیکے لگے تھے تب بھی کچھ افواہیں اڑائی گئی تھیں۔ اس لئے اب کورونا ویکسین کیا استعمال کو لے کر افواہوں پر دھیان نہ دیا جائے تو بہتر ہے۔ یہ پوری طرح حفظان صحت کا معاملہ ہے۔ اس طرح کے معاملات میں طبی ایکسپرٹ کو ہی اپنی رائے دینی چاہئے۔ 
 مولانا صہیب قاسمی آر ایس ایس اور بی جے پی کے بہت قریب رہے ہیں۔ وہ اپنی بے باک رائے کے لئے خاصے مشہور ہیں۔ وزیر اعظم نرندر مودی بھی مولانا صہیب قاسمی کے کام کی تعریف کر چکے ہیں۔ موجودہ حکومت میں مولانا صہیب قاسمی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مولانا کا کہنا ہے کہ ہمیں ملک کے وزیر اعظم پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ مودی جی نے سب کا ساتھ، سب کا وکاس کی بات کی تھی۔ اب دیکھ لیجئے جو کورونا ویکسین آیا ہے وہ ہندو مسلم سکھ عیسائی سب کو ملے گا۔ کسی ہندوستانی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں کیا جائے گا۔ ملک کے تمام شہریوں کو وزیر اعظم نرندر مودی کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ 
مولانا تابش قاسمی کا شمار نوجوان اسکالرس میں ہوتا ہے۔ وہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم میں بھی اچھی دسترس رکھتے ہیں۔ مولانا تابش قاسمی عربی کے علاوہ ہندی، اردو اور انگریزی میڈیا میں آنے والی خبروں پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: 
 
مولانا محمد باقر نعیمی اس وقت مراد آباد کے مشہور ادارے جامعہ نعیمیہ سے منسلک ہیں۔ مولانا باقر نعیمی قدیم علمی ادارہ جامعہ نعیمیہ کے میڈیا انچارج ہیں۔ وہ نہ صرف اردو میڈیا بلکہ انگریزی اور ہندی میڈیا پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ معروف ادارہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے ماس کمیونیکشن تعلیم حاصل کی ہے۔ مولانا محمد باقر نعیمی ماس میڈیا کے جدید تقاضوں سے واقف ہیں۔ ویکسین کے استعمال کے حوالے سے ان کا کہنا ہے: 
 
مولانا نیاز احمد نے دارالعلوم دیو بند، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ مولانا نیاز احمدایک طرف عربی ادب اور دینیات سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ تو دوسری جانب وہ میڈیا کے پروپگنڈوں سے بھی واقف ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ میڈیا کس طرح باتوں کو غلط سمت عطا کرنے میں معاون ہے۔ مولانا نیاز قاسمی کورونا ویکسین کے معاملے کو بھی ماس میڈیا کے جدید تقاضوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:   
”کووڈ 19ایک ایسی وبا ہے جس نے عالمی بحران پیدا کر دیا ہے  اور لاکھوں جانیں تلف ہو گئی ہیں۔ ایسے وقت میں سینیٹائزر، ماسک، عوامی دوری، جیسے احتیاطی تدابیر اور دیگر ہدایات کو بروئے کار لانا چاہئے۔ 
اس وبا سے بچاؤ کے لئے ویکسین بھی تیار کر لی گئی ہے جس کا استعمال ”اسباب“ کے درجے میں ہے اور اسباب اختیار کرنے کو اسلام میں ممنوع قرار نہیں دیا گیا ہے  بلکہ بوقت ضرورت اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ 
ویکسین کی تیاری میں اگر کسی نا مناسب جز کو بھی استعمال کیا گیا ہے اور اس کا کوئی متبادل ویکسین نہ ہو تو ایسے وقت میں انسانی جانوں کو بچانے کے لئے موجودہ ویکسین کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ البتہ متبادل پاک و صاف ویکسین کی تلاش و جستجو جاری رہنی چاہئے۔ 
کرونااور اس کے ویکسین کے سلسلے میں بے بنیاد افواہ اور اسباب کے اختیار کرنے میں بے جا افراط و تفریط سے پرہیز نہایت ضروری ہے“ 
کورونا ویکسین، فتویٰ اور ہندوستانی مسلمان 
کورونا ویکسین کو لے کر کچھ علمائے کرام نے اپنی رائے دی۔ میڈیا نے اس کو ویکسین کے خلاف فتویٰ قرار دیا۔ کبھی کسی عالم دین کا نام سامنے آیا تو کبھی کسی اسلامی اکیڈمی کا نام سامنے آیا۔ کورونا ویکسین کا ٹرائل ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں میں اس کے استعمال کو لے کر غلط فہمی پھیلنے لگی۔ اُردو میڈیا نے بھی اس موضوع پر کوئی خاطر خواہ رہنمائی نہیں کی۔ ہندوستانی مسلمان اپنی عادت کے مطابق کچھ زیادہ ہی پریشان نظر آئے۔ افواہیں بھی گردش کرنے لگیں۔ افواہیں کون پھیلاتا ہے اور افواہوں سے کون متاثر ہوتا ہے؟ یہ حقیقت اہل نظر سے پوشیدہ نہیں۔ 
اسی درمیان میں ۶۱ جنوری کو ملک بھر میں دھوم دھام سے کورونا ویکسین لگانے کا کام شروع ہوا۔ وزیر اعظم نرندر مودی نے اس مہم کا آغاز کیا۔ دہلی کے مشہور زمانہ ہسپتال ایمس میں وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن خود موجود تھے۔ ایک صفائی ملازم کو ایمس میں پہلا ڈوز دیا گیا۔ دوسری طرف افواہیں گردش کرتی رہیں۔ حکومت ہند تمام ہندوستانیوں کو یقین دلاتی رہی کہ ویکسین پوری طرح محفوظ ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے درمیان ہندوستانی مسلمانوں کے شک وشبہات کو لے کر ماحول گرم رہا۔ 
انڈیا نیریٹوکو بھی تشویش تھی۔ ہم نے ملک بھر کے کچھ ممتاز مسلم اسکالرس سے بات کی۔ ان ممتاز مسلم اسکالرس میں نوجوان عالم دین مولانا محمد حسین شیرانی بھی ہیں اور ہمارے نہایت اہم بزرگ اسکالر، ادیب و صحافی ڈاکٹر عبد السمیع بوبیرے بھی ہیں۔ ہم نے مولانا صہیب احمد قاسمی، مولانا نیاز احمد، مولانا محمد باقر نعیمی اور مولانا تابش قاسمی سے بھی بات کی۔  
 
مولانا محمد حسین شیرانی ایک نوجوان عالم دین اور اسکالر ہیں۔ وہ ایک مشہور سینٹرل یونیورسٹی میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ سے بھی وابستہ ہیں۔ ملک کے معتبر اخبارات میں مولانا محمد حسین شیرانی کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ وہ نئی نسل کے نہایت ذہین اور سلجھے خیالات کے حامل اسکالر ہیں۔ مولانا محمد حسین شیرانی کی رائے کا احترام کیا جانا چاہئے۔ ان کا خیال ہے۔ 
ممبئی میں مقیم سینیئر صحافی اور دانشور ڈاکٹر عبد السمیع بوبیرے کا شمار ملک کے ممتاز اسکالرس میں ہوتا ہے۔ بین مذاہب مطالعہ ان کا خاص میدان ہے۔ انٹر فیتھ کی جب بھی بات آتی ہے تو ڈاکٹر عبد السمیع بوبیرے کو ضرور یاد کیا جاتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں ڈاکٹر عبد السمیع بوبیرے نے ہندوستان کی نمائندگی کی ہے۔ 
لفظ فتویٰ کے استعمال کو لے کر ڈاکٹر عبدالسمیع بوبیرے کا کہنا ہے کہ ہمیں اس لفظ کے استعمال سے بچنا چاہئے۔ وہ ان طبی معاملات میں مولوی حضرات کی رائے کو اہمیت نہ دینے کی اپیل کرتے ہیں۔ بوبیرے صاحب کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں جب پولیو ڈراپ پلانے کی مہم چلی تھی تب بھی اس کی مخالفت ہوئی تھی۔ اس سے بھی پہلے جب چیچک اور طاعون کے ٹیکے لگے تھے تب بھی کچھ افواہیں اڑائی گئی تھیں۔ اس لئے اب کورونا ویکسین کیا استعمال کو لے کر افواہوں پر دھیان نہ دیا جائے تو بہتر ہے۔ یہ پوری طرح حفظان صحت کا معاملہ ہے۔ اس طرح کے معاملات میں طبی ایکسپرٹ کو ہی اپنی رائے دینی چاہئے۔ 
 مولانا صہیب قاسمی آر ایس ایس اور بی جے پی کے بہت قریب رہے ہیں۔ وہ اپنی بے باک رائے کے لئے خاصے مشہور ہیں۔ وزیر اعظم نرندر مودی بھی مولانا صہیب قاسمی کے کام کی تعریف کر چکے ہیں۔ موجودہ حکومت میں مولانا صہیب قاسمی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مولانا کا کہنا ہے کہ ہمیں ملک کے وزیر اعظم پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ مودی جی نے سب کا ساتھ، سب کا وکاس کی بات کی تھی۔ اب دیکھ لیجئے جو کورونا ویکسین آیا ہے وہ ہندو مسلم سکھ عیسائی سب کو ملے گا۔ کسی ہندوستانی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں کیا جائے گا۔ ملک کے تمام شہریوں کو وزیر اعظم نرندر مودی کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ 
مولانا تابش قاسمی کا شمار نوجوان اسکالرس میں ہوتا ہے۔ وہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم میں بھی اچھی دسترس رکھتے ہیں۔ مولانا تابش قاسمی عربی کے علاوہ ہندی، اردو اور انگریزی میڈیا میں آنے والی خبروں پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: 
 
مولانا محمد باقر نعیمی اس وقت مراد آباد کے مشہور ادارے جامعہ نعیمیہ سے منسلک ہیں۔ مولانا باقر نعیمی قدیم علمی ادارہ جامعہ نعیمیہ کے میڈیا انچارج ہیں۔ وہ نہ صرف اردو میڈیا بلکہ انگریزی اور ہندی میڈیا پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ معروف ادارہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے ماس کمیونیکشن تعلیم حاصل کی ہے۔ مولانا محمد باقر نعیمی ماس میڈیا کے جدید تقاضوں سے واقف ہیں۔ ویکسین کے استعمال کے حوالے سے ان کا کہنا ہے: 
 
مولانا نیاز احمد نے دارالعلوم دیو بند، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ مولانا نیاز احمدایک طرف عربی ادب اور دینیات سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ تو دوسری جانب وہ میڈیا کے پروپگنڈوں سے بھی واقف ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ میڈیا کس طرح باتوں کو غلط سمت عطا کرنے میں معاون ہے۔ مولانا نیاز قاسمی کورونا ویکسین کے معاملے کو بھی ماس میڈیا کے جدید تقاضوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:   
”کووڈ 19ایک ایسی وبا ہے جس نے عالمی بحران پیدا کر دیا ہے  اور لاکھوں جانیں تلف ہو گئی ہیں۔ ایسے وقت میں سینیٹائزر، ماسک، عوامی دوری، جیسے احتیاطی تدابیر اور دیگر ہدایات کو بروئے کار لانا چاہئے۔ 
اس وبا سے بچاؤ کے لئے ویکسین بھی تیار کر لی گئی ہے جس کا استعمال ”اسباب“ کے درجے میں ہے اور اسباب اختیار کرنے کو اسلام میں ممنوع قرار نہیں دیا گیا ہے  بلکہ بوقت ضرورت اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ 
ویکسین کی تیاری میں اگر کسی نا مناسب جز کو بھی استعمال کیا گیا ہے اور اس کا کوئی متبادل ویکسین نہ ہو تو ایسے وقت میں انسانی جانوں کو بچانے کے لئے موجودہ ویکسین کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ البتہ متبادل پاک و صاف ویکسین کی تلاش و جستجو جاری رہنی چاہئے۔ 
کرونااور اس کے ویکسین کے سلسلے میں بے بنیاد افواہ اور اسباب کے اختیار کرنے میں بے جا افراط و تفریط سے پرہیز نہایت ضروری ہے“ 
 
 
تقریباً نو ماہ کے طویل عرصے کے بعد ہندوستان اور ہندوستانیوں کے لئے نوید مسرت ہے کہ کوروناویکسین کی ٹیکہ کاری مہم کا آغاز کیا جارہا ہے. ہندوستان ایک طویل وقفے تک خوف و ہراس،ھمہ ھمی، اضطراب و بے چینی اور غیر یقینی صورتحال سے سامنا کرنے کے بعد ایک طبعی ماحول میں رفتہ رفتہ داخل ہو رہا ہے؛جس میں کورونا کا خوف کم ہو رہا ہے اور انفيکشن کی رفتار بھی دھیمی ہو گئی ہے.ھندوستان نے اس سے پہلے بھی وباء اور عالمی امراض کا مقابلہ بحسن وخوبی کیا ہے،اس سے پہلے پولیو،خسرہ اور چیچک کا ٹیکہ لگا یا جاچکا ہے.
سوا ارب والے عظیم ہندوستان میں اب تک کی یہ سب سے بڑی ٹیکہ کاری مہم ھو گی اس لیے اس راہ میں آنے والی دشواریوں کا انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن حکومت نے جس طرح سے ٹیکہ کاری مہم کے حوالے سے مرکزی اور ریاستی طور پر رہنما خطوط جاری کئے ہیں امید ہے ان دشواریوں پر قابو پایا جا سکے گا.
اس ٹیکہ کاری مہم کو مذہبی،مسلکی مشربی اور علاقائی چشمہ سے نہیں دیکھنا چاہیے. یہ ایک دوا ہے جو انسانیت اور حفاظت جان کے لئے ہے.
محمد میکائیل تابش قاسمی

 

تقریباً نو ماہ کے طویل عرصے کے بعد ہندوستان اور ہندوستانیوں کے لئے نوید مسرت ہے کہ کوروناویکسین کی ٹیکہ کاری مہم کا آغاز کیا جارہا ہے. ہندوستان ایک طویل وقفے تک خوف و ہراس،ھمہ ھمی، اضطراب و بے چینی اور غیر یقینی صورتحال سے سامنا کرنے کے بعد ایک طبعی ماحول میں رفتہ رفتہ داخل ہو رہا ہے؛جس میں کورونا کا خوف کم ہو رہا ہے اور انفيکشن کی رفتار بھی دھیمی ہو گئی ہے.ھندوستان نے اس سے پہلے بھی وباء اور عالمی امراض کا مقابلہ بحسن وخوبی کیا ہے،اس سے پہلے پولیو،خسرہ اور چیچک کا ٹیکہ لگا یا جاچکا ہے.
سوا ارب والے عظیم ہندوستان میں اب تک کی یہ سب سے بڑی ٹیکہ کاری مہم ھو گی اس لیے اس راہ میں آنے والی دشواریوں کا انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن حکومت نے جس طرح سے ٹیکہ کاری مہم کے حوالے سے مرکزی اور ریاستی طور پر رہنما خطوط جاری کئے ہیں امید ہے ان دشواریوں پر قابو پایا جا سکے گا.
اس ٹیکہ کاری مہم کو مذہبی،مسلکی مشربی اور علاقائی چشمہ سے نہیں دیکھنا چاہیے. یہ ایک دوا ہے جو انسانیت اور حفاظت جان کے لئے ہے.
محمد میکائیل تابش قاسمی

 

 
موصولہ اطلاعات کے مطابق بھارت میں تیار شدہ ویکسین میں کسی حرام اجزا کے شامل کیے جانے کی تحقیق نہیں ہوسکی ہے۔جب حرام اجزا کی شمولیت ہی نہیں ہے تو بحالت اضطرار حرام اجزا کے جواز وعدم جواز کی بحث ہی بے معنی ہے۔اس لیے موجودہ ویکسین کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

 
موصولہ اطلاعات کے مطابق بھارت میں تیار شدہ ویکسین میں کسی حرام اجزا کے شامل کیے جانے کی تحقیق نہیں ہوسکی ہے۔جب حرام اجزا کی شمولیت ہی نہیں ہے تو بحالت اضطرار حرام اجزا کے جواز وعدم جواز کی بحث ہی بے معنی ہے۔اس لیے موجودہ ویکسین کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

Recommended