نئی دہلی،16؍ جون : بھارت میں ٹیکہ کاری سے متعلق قومی تکنیکی مشاورتی گروپ (این ٹی اے جی آئی) کے کووڈ – 19 کے ورکنگ گروپ کے چیئرمین ڈاکٹر این کے اروڑہ نے بھارت میں کووڈ – 19 سے بچاؤ کے لئے ٹیکہ کاری مہم کے بارے میں ڈی ڈی نیوز سے بات کی ہے؛
کووی شیلڈ کے دو ٹیکوں کے درمیان وقفہ میں اضافہ سائنسی ثبوت کی بنیاد پر کیا گیا ہے
ڈاکٹر این کے اروڑہ نے وضاحت کی ہے کہ کووی شیلڈ کے دو ٹیکوں کے درمیان وقفہ کو 4 سے 6 ہفتے سے بڑھا کر 12 سے 16 ہفتے تک کرنے کا فیصلہ اڈینوویکٹر ٹیکوں کے اثرات کے بارے میں بنیادی سائنسی وجہ سے کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپریل 2021 کے آخری ہفتہ میں برطانیہ کے محکمہ صحت کی ایگزیکیٹو ایجنسی، پبلک ہیلتھ انگلینڈ کے ذریعہ جاری ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب دو ٹیکوں کے درمیان وقفہ 12 ہفتے کا ہو تو ویکسین 65 فیصد سے 88 فیصد کے درمیان کارگر ہوتی ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ جس سے انہوں نے الفا قسم کی وجہ سے عالمی وبا کے پھیلنے پر قابو پا یا ہے۔ برطانیہ، اس وبا پر اس لئے قابو پاسکا ہے کھ انہوں نے دو ٹیکوں کے درمیان 12 ہفتے کا وقفہ رکھا۔ ہم نے بھی یہی سوچا کہ یہ ایک اچھا خیال ہے، کیونکہ یہ ظاہر کرنے کی بنیادی سائنسی وجوہات ہیں کہ جب بھی وقفہ میں اضافہ کیا جاتا ہے تو اڈینو ویکٹر ٹیکے بہتر کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ اس لئے 13 مئی کو دو ٹیکوں کے درمیان وقفے میں اضافہ کرکے 12 سے 16 ہفتے کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، اس کے سبب برادری کو بھی لچک فراہم ہوتی ہے کیونکہ ہر شخص بالکل ٹھیک 12 ہفتے پر ٹیکہ لگوانے کے لئے نہیں آسکتا۔
انہوں نے پُر زور طریقے سے اس حقیقت کو اُجاگر کیا کھ کووی شیلڈ ویکسین کے دو ٹیکوں کے درمیان وقفہ میں اضافہ کرنے کا فیصلہ سائنسی ثبوت کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ ہمارا بہت واضح کھلا اور شفاف نظام ہے جہاں سائنسی بنیاد پر فیصلے کئے جاتے ہیں۔ اس معاملے پر این ٹی اے جی آئی کی ایک میٹنگ میں تبادلہ خیال کیا گیا تھا اور ایک بار پھر اس فیصلے پر کوئی اختلاف رائے نہیں ہوا۔ میٹنگ میں سفارش کی گئی تھی کہ ویکسین کے درمیان وقفہ 12 سے 16 ہفتے کا ہونا چاہئے۔
ڈاکٹر اروڑہ نے کہا کہ 4 ہفتے کا اس سے پہلے کا فیصلہ ، اس وقت دستیاب آزمائشی ڈیٹا کی بنیاد پر کیا گیا تھا جس سے وقفہ میں اضافے کے ساتھ ہی زیادہ کارکردگی ظاہر ہوئی تھی ۔ کووی شیلڈ کے بارے میں ابتدائی مطالعات بہت نادرست یا متنوع تھے۔ برطانیہ جیسے کچھ ملکوں نے دسمبر 2020 میں جب یہ ویکسین متعارف کرائی تھی تو دو ٹیکوں کے درمیان 12 ہفتے کا وقفہ رکھا تھا۔ حالانکہ ہمیں جب اپنے وقفہ کے بارے میں فیصلہ کرنا پڑا تو ہم اس دیٹا سے واقف تھے۔ ہم اپنے آزمائشی ڈیٹا کے فرق کو کم کرنے کی بنیاد پر 4 ہفتے کا وقفہ کرنا پڑا، جس سے اچھی قوت مدافعت پیدا ہوئی تھی۔ بعد میں ہمیں اضافی سائنسی اور لیباریٹری ڈیٹا بھی دستیاب ہوئے، جن کی بنیاد پر 6 ہفتے کے بعد، ہم نے محسوس کیا کہ ہمیں وقفہ کو 4 ہفتے سے بڑھا کر 8 ہفتے کردینا چاہئے۔ کیونکہ مطالعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب دو ٹیکوں کے درمیان وقفہ 4 ہفتے کا ہو تو ٹیکوں کی کارکردگی لگ بھگ 57 فیصد ہوتی ہے اور جب یہ وقفہ 8 ہفتے کا ہو تو ویکسین کی کارکردگی 60 فیصد ہوتی ہے۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے این ٹی اے جی آئی نے اس سے پہلے وقفہ کو بڑھا کر 12 ہفتے کا وقفہ کیوں نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہمیں برطانیہ سے زمینی سطح کے ڈیٹا دستیاب ہونے کا انتظار کرنا چاہئے (جو کہ ایسٹرا زینیکا ویکسین استعمال کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے)۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ کینیڈا اور سری لنکا جیسے ملکوں اور چند دیگر ملکوں کی دیگر مثالیں ہیں، جو ایسٹرا زینیکا ویکسین کے لئے جو کہ کووی شیلڈ ویکسین جیسی ہی ہے ، سے 16 ہفتے کا وقفہ استعمال کر رہے ہیں۔
واحد ٹیکہ بمقابلہ دو ٹیکوں سے تحفظ
ڈاکٹر اروڑہ نے وضاحت کی، کیسے این ٹی اے جی آئی ، جزوی بمقابلہ مکمل ٹیکہ کاری کی کارکردگی کے بارے میں ابھرتے ہوئے ثبوت اور جزوی پر غور وخوض کر رہی ہے۔ دو ٹیکوں کے درمیان وقفے میں اضافہ کرنے سے متعلق فیصلے کے 2 سے 3 روز بعد برطانیہ سے خبریں موصول ہوئیں کہ ایسٹرا زینیکا ویکسین کے ایک ٹیکے سے محض 33 فیصد تحفظ حاصل ہوتا ہے اور دو ٹیکوں سے تقریبا 60 فیصد تحفظ ملتا ہے۔ مئی کے وسط سے اس بارے میں تبادلہ خیال جاری ہے کہ کیا بھارت کو 4 یا 8 ہفتے کے وقفے کو دوبارہ اختیار کرلینا چاہئے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ٹیکہ کاری کے پروگرام کے اثرات کا جائزہ لینے کی غرض سے ایک متعلقہ پلیٹ فارم قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جب این ٹی اے جی آئی نے یہ فیصلہ کیا تو ہم نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ بھارت ویکسین کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی غرض سے ایک پلیٹ فارم قائم کرے گا، جس سے کہ نہ صرف ٹیکہ کاری کے پروگرام کے اثر کا جائزہ لیا جاسکے گا بلکہ ویکسین کی قسم اور دو ٹیکوں کے درمیان وقفہ کا بھی جائزہ لیا جاسکے گا اور اگر کوئی شخص جزوی طور پر یا مکمل طور پر ٹیکہ لگواتا ہے تو اس کا کی اثر ہوتا ہے۔ بھارت میں اس کی بہت اہمیت ہے کیونکہ لگ بھگ 17 – 18 کروڑ افراد نے محض ایک ٹیکہ ہی لگوایا ہے جب کہ لگ بھگ 4 کروڑ افراد نے دونوں ٹیکے لگوائے ہیں۔
ڈاکٹر اروڑہ نے پی جی آئی چندی گڑھ کے ایک مطالعہ کا حوالہ دیا جس میں جزوی بمقابلہ مکمل ٹیکہ کاری کی کارکردگی کا موازنہ کیا گیا تھا۔ پی جی آئی چنڈی گڑھ کے مطالعہ سے بالکل صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ جزوی طور پر اور مکمل طور پر دونوں طرح کی ٹیکہ کاری میں کارکردگی 75 فیصد رہی ہے اس بالآخر مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ چاہے آپ جزوی طور پر یا مکمل طور پر ٹیکہ لگوائیں، ٹیکے کی کارکردگی ایک جیسی ہی رہتی ہے۔ یہ بات الفا قسم کے بارے میں ہے جس نے پنجاب اور شمالی بھارت کے بعد دہلی کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اگر آپ صرف ایک ٹیکہ لگوائیں تب بھی آپ محفوظ ہیں۔ انہوں کہا جی سی ایم سی ویلور کے نتائج بھی بالکل اسی طرح ہیں۔
ویکسین کی کارکردگی کی نگرانی اور اسی کے بارے میں جاری مطالعات
ڈاکٹر اروڑہ نے کہا کہ پی جی آئی اور سی ایم سی ویلور کے مطالعات کے ساتھ ساتھ دہلی میں ہی دو مختلف تنظیموں کے دو دیگر مطالعات بھی سامنے آئے ہیں اور دونوں مطالعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ٹیکے سے انفیکشن پر قابو پانے کا اثر لگ بھگ 4 فیصد ہے، دو ٹیکوں سے تقریبا5 فیصد ہے اور بنیادی طور پر دونوں میں مشکل سے ہی کوئی فرق ہے اور دیگر مطالعہ میں انفیکشن 2 فیصد – 1.5 فیصد کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر اروڑہ نے کہا کہ مختلف ذرائع سے موصولہ ڈیٹا کو مربوط کیا جائے گا تاکہ ٹیکہ کاری پروگرام کے مختلف پہلوؤں کے اثرات کا جائزہ لیا جاسکے اور اس کی رپورٹ پیش کی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے پاس ٹیکہ کاری کے بعد مضر اثرات کی نگرانی (اے ای ایف آئی) کے لئے ایک مستحکم نظام بھی موجود ہے۔
کووی شیلڈ ٹیکوں کے درمیان وقفہ کو کم کرنے سے متعلق کوئی تجویز؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر اروڑہ نے کہا کہ صحت اور برادری کے تحفظ کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہوئے سائنسی بنیاد پر کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ کووڈ – 19 اور ٹیکہ کاری کا عمل بہت زیادہ ہمہ جہت ہے۔ کل اگر ویکسین پلیٹ فارم ہمیں مطلع کرتا ہے کہ کم کیا گیا وقفہ ہمارے عوام کے لئے بہتر ہے تو اگر فائدہ 5-10 فیصد بھی ہے تو بھی کمیٹی، فضیلت کی اور اپنی سمجھ و دانا کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی۔ دوسری جانب اگر یہ معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ فیصلہ اچھا ہے تو ہم اسے جاری رکھیں گے۔ انہوں نے ا س بات پر زور دیا کہ بالاخر ہماری قوم کی صحت اور تحفظ کی سب سے زیادہ اہمیت ہے۔ یہ بات سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے ، جس کے بارے میں ہم تبادلہ خیال کرتے ہیں، نئے سائنسی ثبوت تیار کرتے ہیں اور فیصلہ سازی کرتے ہیں۔