Urdu News

مصنوعی ہاتھ معذوروں کے لیے کیسے ثابت ہوں گے ایک عظیم تحفہ؟

مصنوعی ہاتھ

اب ہاتھ کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گے سی ایس آئی آر- این پی ایل کے سائنس داں

نئی دہلی ، 19 اپریل (انڈیا نیرٹیو)

 نیشنل فزیکل لیبارٹری (این پی ایل) کے سائنسدانوں نے ایسا مصنوعی ہاتھ تیار کیا ہے ، جو معذور افراد کے لیے ایک وردان ثابت ہوگا۔ سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ اس مصنوعی ہاتھ سے معذور افراد کی زندگی آسان ہو جائے گی۔

اس پروجیکٹ سے وابستہ این پی ایل کے سائنسدان ڈاکٹر آلوک پرکاش نے خصوصی بات چیت میں کہا کہ ان کی ٹیم نے ایک مصنوعی ہاتھ بنایا ہے ، اس سے یقینا لوگوں کی مشکلات میں کمی آئے گی۔ اس کے ذریعے معذور افراد اپنے روزمرہ کے کام خود کر سکیں گے۔

بات چیت کے دوران ڈاکٹر آلوک نے کہا کہ جو کمپنیاں اس وقت مصنوعی ہاتھ بنانے پر کام کر رہی ہیں ، وہ بہت مہنگے داموں میںمصنوعی ہاتھ بنا رہی ہیں۔ ایک خودکار مصنوعی ہاتھ کی قیمت دو لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے، این پی اے نے ایک انتہائی سستا مصنوعی ہاتھ تیار کیا ہے ، جسے حیدرآباد کی ایک کمپنی کے ساتھ مل کر اگلے ایک سال کے اندر مارکیٹ میں لایا جائے گا۔

ڈاکٹر آلوک نے کہا کہ انوراگ کٹیار ، منگارام اور انسٹی ٹیوٹ کے کئی دوسرے سائنسدانوں نے اس پروجیکٹ میں تعاون کیا ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا میں تقریباً 1.5 کروڑ افراد ایسے ہیں جن کے جسم کے کسی نہ کسی حصے کو کاٹ دیا گیا ہے۔

ان میں سے 45 لاکھ لوگ ایسے ہیں جن کے بازو کے نچلے حصے کو نقصان پہنچا ہے۔ ایسے لوگوں کی مدد کے لیے این پی ایل کا اقدام قابل تعریف ہے۔اس تناظر میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر آلوک نے کہا کہ مصنوعی ہاتھ اسی طرح کام کرتا ہے جس طرح ہمارے ہاتھ کام کرتے ہیں۔

مصنوعی ہاتھ چلانے کے لیے این پی ایل نے ہال مایوگرافی نامی ایک سینسر ڈیزائن کیا ہے ، جسے کٹے ہوئے ہاتھ کے بائیں حصے میں ایسی جگہ پر رکھا جاتا ہے جہاں سکڑاؤ ہوتا ہے۔ یہ آلہ پٹھوں کے سگنل کو سمجھ کر مصنوعی ہاتھ چلانے میں مدد کرتا ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جسم کا آپریشن کا اپنا طریقہ کار ہے۔ اس طریقہ کار کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ہال میوگرافی مشین بنائی گئی ہے۔ ڈاکٹر آلوک نے بتایا کہ ریڑھ کی ہڈی (اسپائنل کارڈ) دماغ کے پیغام کو جسم کے دیگر حصوں بالخصوص ہاتھ اور پاؤں تک پہنچاتی ہے۔

ایسی حالت میں ریڑھ کی ہڈی دماغ کے پیغام کو ہاتھ کے باقی حصے کے ٹشوز تک پہنچاتی ہے جہاں سے اسے کاٹا جاتا ہے۔ ہاتھ کے اس بائیں حصے پر ہال میوگرافی مشین لگائی گئی ہے جس کے بعد یہ مشین دماغ کے سگنلز کو سمجھ کر مصنوعی ہاتھ کا کام کرتی ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ دنیا میں تقریباً 1.5 کروڑ لوگ ایسے ہیں جن کا کوئی نہ کوئی عضو کٹ چکا ہے جس کی وجہ سے وہ معذور ہو چکے ہیں۔ ان میں سے تقریباً 30 فیصد یعنی 45 لاکھ معذور ایسے ہیں ، جن کے نچلے بازو کو نقصان پہنچا ہے۔

ان میں سے زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں رہتے ہیں۔ ہندوستان میں 7.5 لاکھ لوگ جسمانی طور پر معذور ہیں۔ ڈبلیو ایچ او اور آئی ایس پی او کے مطابق کہنی کے نچلے حصے کی معذوری کی سب سے بڑی وجہ کوئی حادثہ یا چوٹ ہے۔

Recommended