Urdu News

معروف نقاد ، ادیب ، ماہرلسانیات اور ساہتیہ اکیڈمی کے سابق چیرمین پروفیسر گوپی چند نارنگ کا انتقال

پروفیسر گوپی چند نارنگ مرحوم

نئی دہلی،(ابوشحمہ انصاری)

معروف نقاد،ادیب، ماہرلسانیات اور ساہتیہ اکیڈمی کے سابق چیرمین پروفیسر گوپی چند نارنگ کا آج امریکہ میں انتقال ہوگیا۔ان کی عمر تقریبا 91 برس تھی۔

گوپی چند نارنگ 11 فروری 1931ء کو ڈکی، زیریں پنجاب میں پیدا ہوئے تھے ۔پروفیسر گوپی چند نارنگ نے بچپن کوئٹہ میں گزارا۔ انہوں نے سنہ 1954ء میں یونیورسٹی آف دہلی سے اردو میں ایم اے اور اسی جامعہ سے سنہ 1958ء میں لسانیات میں پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ گوپی چند نارنگ نے سنہ 1957ء میں سینٹ اسٹیفینس کالج، دہلی میں لیکچرر کے طور پر پڑھانا شروع کیا اور 1995ء تک دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پہ تدریس سے وابستہ رہے۔ وہ آج بھی دہلی یونیورسٹی کے اعزازی پروفیسر، پروفیسر ای میریٹس، ہیں۔

پروفیسر گوپی چند نارنگ کو عہد حاضر کا صف اول کا اردو نقاد، محقق اور ادیب مانا جاتا ہے۔ گو کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ دہلی میں مقیم تھے مگر وہ باقاعدگی سے پاکستان میں اردو ادبی محافل میں شریک ہوتے ہیں جہاں ان کی علمیت کو نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اردو کے جلسوں اور مذاکروں میں شرکت کرنے کے لیے وہ ساری دنیاکا سفر کرتے رہتے ہیں او رانہیں سفیر اردو کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ جہاں انہیں بھارت میں پدم بھوشن کا خطاب مل چکا ہے وہیں انہیں پاکستان میں متعدد انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ چند ماہ قبل تک وہ بھارت کے سب سے اہم ادبی ادارے ساہتیہ اکادمی کے صدر کے عہدے پر فائز تھے۔

پروفیسر گوپی چند نارنگ چونسٹھ کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کتابوں میں پینسالیس اردو میں، بارہ انگریزی میں اور سات ہندی میں لکھی گئی ہیں۔ چند کے نام یہ ہیں،

ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات،ادب کا بدلتا منظر نام،ادبی تنقید اور اسلوبیات، امیر خسرو کا ہندی کلام،سانحہ ککربلا بطور شعری استعارہ، اردو افسانہ، روایت اور مسائل، ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں، ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری، ترقی پسندی، جدیدیت، مابعد جدیدیت، جدیدیت کے بعد،ولی دکنی، تصوف، انسانیت اور محبت کا شاعر،انیس اور دبیر،بیسویں صدی میں اردو ادب، فراق گورکھپوری، اطلاقی تنقید، سجاد ظہیر،اردو کی نئی بستیاں،اقبال کا فن، فکشن شعریات، کاغذ آتش زدہ، تپش نامہء تمنا، جدید ادبی تھیوری، غالب،معنی آفرینی، جدلیاتی وضع، شونیتا اور شعریات

Recommended