ہندوستانی زبانوں کا مرکز جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں پروفیسر ابن کنول کی یاد میں تعزیتی نشست کا انعقاد
ہندستانی زبانوں کا مرکز، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں پروفیسر ابن کنول کے سانحہٴ ارتحال پر تعزیتی اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔اجلاس کے ابتدا میں سابق چیر پرسن پروفیسر انور عالم پاشا نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ”ابن کنول کا یوں رخصت ہو جانا اردو ادب کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے“۔وہ تخلیقی و تنقیدی محاذ پر بے حد فعال تھے۔ ان کی بہت سی تخلیقات اور تحریریں اردو ادب کے فروغ کے لیے ایک اہم اضاٖفہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔بطور استاد دہلی یونیورسٹی میں جس طرح انہوں نے اپنی خدمات انجام دیں اس کا اعترااف نہ صرف دہلی یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ کرتے ہیں بلکہ دیگر دانش گاہوں کے اساتذہ اور طلبہ بھی ان کی صلاحیتوں کے قائل ہیں۔ افسانوی ادب کے متعلق بات کریں یا خاکہ نگاری کے حوالے سے ان کی تخلیقات ہمارے ادبی سرمائے میں اہم اضافہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
مزید گفتگو کرتے ہوئے شعبہ اردو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے استاد،سابق ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زباناور ورلڈ اردو ایسو سی ایشن کے صدر پروفیسر خواجہ محمد اکرا م الدین نے پروفیسر ابن کنول کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ”اردو ادب کا ایک ایسا ستارہ غروب ہوا جس کا متبادل ممکن نہیں جو اپنی ادبی خدمات،تنقیدی بصیرت اور دانشورانہ نظریے اور اپنے مخلصانہ رویوں کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہیں گے“ پروفیسرابن کنول نیک دل اور نیک سیرت انسان تھے ان کے چلے جانے سے اردو دنیا ایک بہترین ادیب اور ایک اچھے انسان سے محروم ہوگئی ہے۔اس کے علاوہ تعزیتی نشست میں ڈاکٹر توحید خان،راغب دیش مکھ،ڈاکٹر شیو پرکاش اور کئی طلباو طالبات نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کر کے پروفیسر مرحوم کو خراج عقیدت پیش کی اور دعائے مغفرت کے ساتھ تعزیتی نشست کا اختتام ہوا۔
واضع ہو کہ پروفیسر ابن کنول 15اکتوبر 1957ء کو بدایوں اتر پردیش میں پیدا ہوئے تھے۔ان کا اصل نام ناصر محمود کمال تھا لیکن ادبی دنیا میں ان کو ابن کنول کے نام سے ہی جانا جاتا تھا۔انہوں نے کئی اصناف ادب پر طبع آزمائی کی لیکن ان کی محبوب اصناف افسانہ اور خاکہ نگاری تھیں۔ پروفیسر کی ہم کتابوں میں ”بند راستے“،”بزم داغ“،چار کھونٹ“،”داستان سے ناول تک“،”ہندوستانی تہذیب بوستان خیل کے تناظر میں“تنقیدی اظہار“،تنقید و تحسین“،اردو افسانہ“ اور تیسری دنیا کے لوگ“ شامل ہیں۔دیگر تصانف میں ”بحرتجلّیات“(سفر نامہئ حج)اصناف پارینہ“،مضراب“ اصناف سخن“ اور منتخب غزلیات وغیرہ بھی اہمیت کی حامل ہیں۔