Urdu News

قصبہ سعادت گنج کے حاجی عبدالحفیظ کا انتقال پُرملال

حاجی عبدالحفیظ

سعادت گنج،بارہ بنکی(ابوشحمہ انصاری)

موت ایک حقیقی امر ہے۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ موت نام ہے روح کا بدن سےتعلق ختم ہونے کا۔ موت نام ہے انسان کا دارِفانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کرجانے کا۔ موت پر انسان کے اعمال کا رجسٹر بندکردیا جاتا ہے۔ موت پر توبہ کا دروازہ بند اور جزا و سزا کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ ہم ہر روز ، ہر گھنٹہ ، ہر لمحہ اپنی موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ سال ، مہینے اور دن گزرنے پر ہم کہتے ہیں کہ ہماری عمر اتنی ہوگئی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایام ہماری زندگی سے کم ہوگئے ہیں۔

 بارہ بنکی ضلع کے قصبہ سعادت گنج کی معروف شخصیت حاجی عبدالحفیظ انصاری کا انتقال ہمارے قصبہ کے لئے بڑے خسارے کی بات ہے۔ انہوں نے سعادت گنج کے محلہ پچاسہ کی مسجد میں تقریباً 45 سال مؤذنی کے فرائض انجام دئے ہیں۔

واضح ہو کہ اذان دینے والے شخص کی احادیث میں بے شمار فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ جوشخص ثواب کی امید رکھتے ہوئے سات سال تک اذان دے تو اس کے لئے جہنم سے خلاصی لکھ دی جاتی ہے۔ مرحوم حاجی عبدالحفیظ کیا خوش نصیب شخص تھے جن کو چالیس سال سے بھی زیادہ عرصے تک پنجوقتہ اذان دینے کا شرف حاصل ہوا ہے۔

وہ تقریباً پچیس سالوں تک رمضان المبارک کے اخیرعشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ جب سعادت گنج کی مدنی مسجد بن کر تیار ہوئی تو اس مسجد کو آباد کرنے کی غرض سے وہاں دو سال اور نئی بازار کی مکی مسجد میں تین سال ، ایک سال لکھنؤ کے گومتی نگر ، ایک بار مولانا علی میاں کے ساتھ تکیہ رائے بریلی اور ایک سال پیرطریقت مولانا سجاد نعمانی کی معیت میں جہانگیرآباد میں بھی دس دنوں کا اعتکاف کیا تھا۔ خوش طبعی ، منکسرالمزاجی اور مہمان نوازی مرحوم حاجی صاحب کے اوصاف حمیدہ کا حصہ تھے۔

وہ پچھلے چند سالوں سے اپنی پیرانہ سالی اور جسمانی ضعف کی وجہ سے بسترِ علالت پر تھے۔ ان کی عمر تقریباً 97 سال تھی۔ ان کی چار بیٹیاں اور چار بیٹے تھے۔ چاروں بیٹے ان کی زندگی میں ہی اپنے الگ الگ مکانات میں رہنے لگے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا آخری حصہ اپنے منجھلے بیٹے حاجی محمدنفیس انصاری اور کچھ مہینے بڑے بیٹے مرحوم عبدالقوی کے گھر پرگزارا۔ وہ اپنی اصلاحِ نفس کی خاطرمولانا عبدالغنی رسولوی اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی سے بیعت بھی ہوئے تھے۔ وہ راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔

وہ مدرسہ جامعہ مدینۃ العلوم رسولی اور فیضان العلوم انٹر کالج سعادت گنج کے فعال رکن رہ چکے تھے۔ وہ قوم و ملت کے حقیقی غمخوار تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں دو حج کئے تھے۔ 1990 میں انہوں نے اپنا پہلا حج سمندری راستے سے جبکہ 2002 میں اپنی اہلیہ کے ساتھ دوسرے حج کی ادائیگی ہوائی راستے سے کی تھی۔ انہوں نے 1958 میں جب اپنے آبائی وطن و اطراف کے لوگوں میں جہالت و بدعات کی تاریکیاں دیکھیں تو ان کے اندر لوگوں کو راہ راست پر لانے کی ایک فکر پیدا ہوئی۔

اور پھر یہ عہد کرکے تبلیغِ دین کے میدان میں کود پڑے۔ چند سالوں میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر دھیرے دھیرے یہاں پرتبلیغی فضا ہموارکردی۔ اچھائی کا حکم اور برائیوں کی قباحتیں بیان کرکے لوگوں کو برائیوں سے روکنے کا کام شروع کردیا۔ اس طرح انہوں اپنی زندگی کا آدھا حصہ دعوت و تبلیغ میں صَرف کرکے اپنی آخرت کا بہترین توشہ تیار کرلیا تھا۔ اس کے علاوہ قصبہ کے لوگوں کو عصری تعلیمات سے روشناس کرنے کی خاطر فیضان العلوم انٹر کالج کے قیام میں ان کا بڑا اہم رول رہا ہے۔

آج قصبہ سعادت گنج میں جو علمی ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے وہ انہیں جیسے بزرگوں کی قربانیوں اور محنتوں کا نتیجہ ہے۔ یقیناً یہاں کی عوام کے روشن مستقبل کے لئے ان جیسے بزرگوں کی بیش بہا قربانیوں اور مشقتوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اب رفتہ رفتہ قصبہ سعادت گنج سے ان تمام بزرگوں کا سایہ ہمارے سروں سے اٹھتا چلا جا رہا ہے۔ جنہوں نے آنے والی نسلوں کے لئے اپنا تن من دھن قربان کرکے ایک علمی چراغ روشن کردیا۔

ان کی نماز جنازہ ان کے بھتیجے الحاج حافظ خلیل الرحمٰن عرفانی کی اقتدا میں بعد نماز ظہر مدنی مسجدکے میدان میں ادا کی گئی۔ اور تکیہ قبرستان میں ان کو سپردِ لحد کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے سیئات کو حسنات سے مبدل فرما کر ان کی مغفرت اور درجات بلند فرمائے۔

Recommended