Urdu News

ملک میں جینیاتی دواؤں کی فروخت

Sale of Generic Drugs in the country

حکومت ہند کی کیمیکلز اور فرٹیلائزر کی وزارت کے محکمہ دوا سازی کے ذریعہ‘ پردھان منتری بھارتیہ جن اوشدھی پر یوجنا’(پی ایم بی جے پی) کاآغاز کیا گیا۔جس کے تحت پردھان منتری بھارتیہ  جن اوشدھی کیندر( پی ایم  بی جے کے) کے ذریعہ معیاری جینیاتی دوائیں پورے ملک میں فروخت کی جاتی ہیں۔

جینیاتی اور مارکے والی دواؤں کی کوئی مخصوص تاریخ 1940 کے ڈرگس اینڈ کاسمیٹک ایکٹ کے ذریعہ نہیں کی گئی ہے۔ تاہم جینیاتی دوائیں عام طور پر ان کو کہاجاتا ہے دن میں  ایک ہی خوراک میں ایک عنصر کی وہ ہی مقدار پائی جائے اور یہ دوا بھی اسی طریقے سے دی جاتی ہے، جس طرح برانڈڈ دوائیں دی جاتی ہے۔مزید یہ کہ ملک میں تیار کی جانے والی دوائیں، چاہے وہ جینیاتی ہو یا برانڈڈ، ان سب کو  ان کی معیارات کی پابندی کرنی ہوتی ہے جو ان کی کوالٹی کی جانچ کے لئے ڈرگس اینڈ کاسمیٹک ایکٹ 1940 اور ضوابط 1945 میں بیان کئے گئے ہیں اور اس اعتبار سے ان دونوں سے ایک ہی قسم کے اثر کی توقع کی جاتی ہے۔غیر مارکے والی جینیاتی دوا کی قیمت  ایک برانڈڈ دوا کی قیمت کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔کیونکہ جینیاتی دوا کے معاملے میں دوا ساز کمپنی اس کے فروخت پر روپیہ خرچ نہیں کرتی۔ جینیاتی دواؤں کی فروخت میں ترغیب کاری کے طور پر دوا ساز کمپنی تھوک اور پرچون کے خریداروں کے لئے اعلی درجے کے تجارتی مارجن کا طریقہ اختیار کرتی ہے۔

تاہم انڈین میڈیکل کاؤنسل(پیشہ وارانہ  برتاؤ، لہجہ اور اخلاقیات) ضوابط 2002 کی شق 1.5 یہ بیان کرتی ہے کہ ہر ڈاکٹر کو چاہئے کہ وہ جینیاتی ناموں والی  دوائیں تجویز کریں، جن پر نام کیپٹل لیٹرس میں لکھے گئے ہو اور اُسے اس دوا کی ایک معقول تجویز  اور استعمال کو  یقینی بنانا چاہئے۔مزید یہ کہ پچھلے وقت کی میڈیکل  کاؤنسل انڈیا نے 2017-04-21 ا یک سرکلر جاری کیا تھا،جس کے ذریعہ تمام اندراج شدہ میڈیکل پریکٹشنرز کو مذکورہ بالا التزامات کی پابندی کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔  ایم سی آئی یا ریاستی میڈیکل کاؤنسل کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مذکورہ بالا ضوابط کی خلاف ورزی کرنے  والے کسی بھی ڈاکٹر کے خلاف  انضباطی کارروائی  کرسکتی ہے۔جب بھی کبھی ڈاکٹروں کے لئے مقررہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی کوئی شکایت موصول ہوتی ہے تو  اُ سے ایم سی آئی متعلقہ ریاستی میڈیکل کاؤنسل کو ریفر کردیتی ہے۔ جہاں ڈاکٹروں کا رجسٹریشن کیا گیا ہوتا ہے۔اس کے علاوہ 22 مئی 2020 کو مشتہر کی گئیں ٹیلی میڈیسائن گائیڈ لائنس 2020 بھی تمام آر ایم پیز کو دواؤں کے لئے جینیاتی ناموں کا استعمال کرنے اور دستاویز ات کے ساتھ ملحقہ تجویزی فارمیٹ میں  انہیں کیپٹل لیٹرس میں لکھنے کی ہدایت کرتی ہیں۔

اس کے علاوہ صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت بہت سے انضباطی اقدامات جینیاتی دواؤں کے معیار کے فروغ کو یقینی بنانے کے ارادے سے کئے گئے ہیں۔ ان میں لائسنس جاری کرنے والے اداروں کے لئے  بھی یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ دواؤوں کی تیاری اور تقسیم کے لئے لائسنس جاری یا رینو اسی شرط پر کریں کہ دواؤں کے نام جینیاتی ہوں گے۔اس کے علاوہ ڈرگس اینڈ کاسمیٹکس قوانین 1945 میں بھی اس مقصد سے ترمیم کی گئی کہ کسی بھی دوا کی تیاری کے لئے لائسنس جاری کرنے میں جینیاتی نام کو لازمی کیا جائے اور 1945 کے ضوابط میں اسی حوالے سے کچھ التزامات کو شامل بھی کیا گیا،جن کے تحت مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کی ڈرگس انسپکٹروں کو مشترکہ طور پر ان دواؤں کو تیار کرنے والے اداروں کی جانچ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔

حکومت ہند کی کیمیکلز اور فرٹیلائزر کی وزارت کے محکمہ دوا سازی کے ذریعہ‘ پردھان منتری بھارتیہ جن اوشدھی پر یوجنا’(پی ایم بی جے پی) کاآغاز کیا گیا۔جس کے تحت پردھان منتری بھارتیہ  جن اوشدھی کیندر( پی ایم  بی جے کے) کے ذریعہ معیاری جینیاتی دوائیں پورے ملک میں فروخت کی جاتی ہیں۔

جینیاتی اور مارکے والی دواؤں کی کوئی مخصوص تاریخ 1940 کے ڈرگس اینڈ کاسمیٹک ایکٹ کے ذریعہ نہیں کی گئی ہے۔ تاہم جینیاتی دوائیں عام طور پر ان کو کہاجاتا ہے دن میں  ایک ہی خوراک میں ایک عنصر کی وہ ہی مقدار پائی جائے اور یہ دوا بھی اسی طریقے سے دی جاتی ہے، جس طرح برانڈڈ دوائیں دی جاتی ہے۔مزید یہ کہ ملک میں تیار کی جانے والی دوائیں، چاہے وہ جینیاتی ہو یا برانڈڈ، ان سب کو  ان کی معیارات کی پابندی کرنی ہوتی ہے جو ان کی کوالٹی کی جانچ کے لئے ڈرگس اینڈ کاسمیٹک ایکٹ 1940 اور ضوابط 1945 میں بیان کئے گئے ہیں اور اس اعتبار سے ان دونوں سے ایک ہی قسم کے اثر کی توقع کی جاتی ہے۔غیر مارکے والی جینیاتی دوا کی قیمت  ایک برانڈڈ دوا کی قیمت کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔کیونکہ جینیاتی دوا کے معاملے میں دوا ساز کمپنی اس کے فروخت پر روپیہ خرچ نہیں کرتی۔ جینیاتی دواؤں کی فروخت میں ترغیب کاری کے طور پر دوا ساز کمپنی تھوک اور پرچون کے خریداروں کے لئے اعلی درجے کے تجارتی مارجن کا طریقہ اختیار کرتی ہے۔

تاہم انڈین میڈیکل کاؤنسل(پیشہ وارانہ  برتاؤ، لہجہ اور اخلاقیات) ضوابط 2002 کی شق 1.5 یہ بیان کرتی ہے کہ ہر ڈاکٹر کو چاہئے کہ وہ جینیاتی ناموں والی  دوائیں تجویز کریں، جن پر نام کیپٹل لیٹرس میں لکھے گئے ہو اور اُسے اس دوا کی ایک معقول تجویز  اور استعمال کو  یقینی بنانا چاہئے۔مزید یہ کہ پچھلے وقت کی میڈیکل  کاؤنسل انڈیا نے 2017-04-21 ا یک سرکلر جاری کیا تھا،جس کے ذریعہ تمام اندراج شدہ میڈیکل پریکٹشنرز کو مذکورہ بالا التزامات کی پابندی کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔  ایم سی آئی یا ریاستی میڈیکل کاؤنسل کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مذکورہ بالا ضوابط کی خلاف ورزی کرنے  والے کسی بھی ڈاکٹر کے خلاف  انضباطی کارروائی  کرسکتی ہے۔جب بھی کبھی ڈاکٹروں کے لئے مقررہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی کوئی شکایت موصول ہوتی ہے تو  اُ سے ایم سی آئی متعلقہ ریاستی میڈیکل کاؤنسل کو ریفر کردیتی ہے۔ جہاں ڈاکٹروں کا رجسٹریشن کیا گیا ہوتا ہے۔اس کے علاوہ 22 مئی 2020 کو مشتہر کی گئیں ٹیلی میڈیسائن گائیڈ لائنس 2020 بھی تمام آر ایم پیز کو دواؤں کے لئے جینیاتی ناموں کا استعمال کرنے اور دستاویز ات کے ساتھ ملحقہ تجویزی فارمیٹ میں  انہیں کیپٹل لیٹرس میں لکھنے کی ہدایت کرتی ہیں۔

اس کے علاوہ صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت بہت سے انضباطی اقدامات جینیاتی دواؤں کے معیار کے فروغ کو یقینی بنانے کے ارادے سے کئے گئے ہیں۔ ان میں لائسنس جاری کرنے والے اداروں کے لئے  بھی یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ دواؤوں کی تیاری اور تقسیم کے لئے لائسنس جاری یا رینو اسی شرط پر کریں کہ دواؤں کے نام جینیاتی ہوں گے۔اس کے علاوہ ڈرگس اینڈ کاسمیٹکس قوانین 1945 میں بھی اس مقصد سے ترمیم کی گئی کہ کسی بھی دوا کی تیاری کے لئے لائسنس جاری کرنے میں جینیاتی نام کو لازمی کیا جائے اور 1945 کے ضوابط میں اسی حوالے سے کچھ التزامات کو شامل بھی کیا گیا،جن کے تحت مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کی ڈرگس انسپکٹروں کو مشترکہ طور پر ان دواؤں کو تیار کرنے والے اداروں کی جانچ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔

Recommended