Urdu News

کینسرکے قومی انسٹی ٹیوٹ میں انفوسس فاؤنڈیشن وشرام سدن کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کا متن

ایمس ، نئی دہلی

 

نمسکار جی،

ہریانہ کے وزیراعلی جناب منوہر لال کھٹر جی، صحت و خاندانی بہبود کے مرکزی وزیر جناب منسکھ منڈاویہ جی،صحت و خاندانی بہبود کی مرکزی وزیر مملکت محترمہ ڈاکٹر بھارتی پروین پوار جی،ہریانہ کے وزیرصحت جناب انل وج جی، انفوسس فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن محترمہ سودھا مورتی جی، پارلیمنٹ کے میرے احباب، اراکین اسمبلی، دیگر سرکردہ شخصیات، میرے بھائیوں اور بہنوں۔

آج 21؍ اکتوبر، 2021 کا یہ دن تاریخ میں درج ہو گیا ہے۔ بھارت نے  اب سے کچھ دیر پہلے 100 کروڑ ویکسین کی خوراک کا ہندسہ عبور کر لیا ہے۔ 100 برسوں میں سب سے بڑی وبائی مرض کا مقابلہ کرنے کے لیے ، ملک کے پاس اب 100 کروڑ ویکسین خوراکوں کی مضبوط حفاظتی ڈھال ہے۔ یہ شاندار کامیابی اور حصولیابی بھارت کی ہے ، ہندوستان کے ہر شہری کی ہے۔ میں ملک کی تمام ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں ، ویکسین کے نقل و حمل سے وابستہ  جملہ کارکنوں ، ٹیکہ کاری میں شامل صحت کے شعبے کے پیشہ وروں ، ان سب کے لیے دل کی گہرائیوں سے اظہار تشکرپیش  کرتا ہوں۔  ابھی کچھ دیر پہلے ، میں رام منوہر لوہیا ہسپتال میں ایک ویکسین سنٹر کا معائنہ کرکے آیا ہوں۔ ایک جوش ہے اور ذمہ داری کا احساس بھی ہے کہ  ہمیں مل کر اور اجتماعی کوششوں کے ذریعہ جتنی جلدی ممکن ہو کورونا کو شکست دینا ہے۔ میں ہر ہندوستانی کو مبارکباد دیتا ہوں ، میں100 کروڑ ویکسین کی خوراکوں کی اس تاریخی کامیابی کو ہر ہندوستانی کے لیے وقف کرتا ہوں۔

ساتھیو،

آج ایمس جھجر میں، کینسر کے علاج کے لیے آنے والے مریضوں کو ایک بڑی سہولت ملی ہے۔ نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ میں بنایا گیا یہ وشرام سدن مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کی پریشانیوں کو کم کرے گا۔ کینسر جیسی بیماری میں مریض اور ان کے رشتہ داروں کو علاج کے لیے بار بار ہسپتال جانا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی ڈاکٹر سے صلاح و مشورہ ، کبھی کوئی ٹیسٹ اور جانچ ، کبھی ریڈیو تھیراپی ، کبھی کیموتھیراپی۔ ایسی صورتحال میں ان کے لیے سب  سے بڑا مسئلہ یہ درپیش آتا ہے کہ کہاں رکیں ، کہاں رہیں؟ اب نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ میں آنے والے مریضوں کی یہ پریشانی بہت حد تک کم ہو جائے گی۔ خاص طور پر ہریانہ کے لوگ ، دہلی اور اس کے گردونواح کے لوگ ، اتراکھنڈ کے لوگوں کو اس سے بہت بڑی  مدد ملے گی۔

 ساتھیو،

اس بار لال قلعے کی فصیل سے میں نے ایک بات کہی تھی ، میں نے  کہا تھا سب کا پریاس،(سب کی کوشش)۔ یہ سب کی کوشش کی جو بات کہی تھی۔ کوئی بھی شعبہ ہو ، جیسے ہی اس میں اجتماعی طاقت جمع ہوتی ہے ، سب کی کوششیں نظر آتی ہیں ، پھر تبدیلی کی رفتار بھی بڑھ جاتی ہے۔ 10 منزلہ  یہ وشرام سدن بھی کورونا کے اس دور میں سب کی کوششوں سے پایہ تکمیل کو پہنچا ہے۔ اور یہ بات بھی بہت  خاص ہے کہ اس وشرام سدن میں ملک کی حکومت اور کارپوریٹ ورلڈ(کاروبار کی دنیا) دونوں کی مشترکہ طاقت لگی ہے۔ انفوسس فاؤنڈیشن نے وشرام سدن کی عمارت تعمیر کی ہے جبکہ زمین اور بجلی- پانی کی لاگت ایمس جھجر کے ذریعہ فراہم کی گئی ہے۔ میں اس بہت ہی عظیم خدمت کے لیے ایمس مینجمنٹ اور سودھا مورتی جی کی ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ سودھا جی کی شخصیت جتنی شائستہ ،سادہ اور سہل ہے ، اتنی ہی ان کے دل میں غریبوں کے لیے ہمدردی اور اپنائیت بھی ہے۔ سودھا جی کےنیک  خیالات ، ان کی کوششیں اور کارکردگی ، ہر اس شخص کو متاثر کرتے ہیں جو نر سیوا کو نارائن سیواسمجھتا ہے۔ میں اس وشرام سدن میں ان کے تعاون کے لیے ان کی ستائش  کرتا ہوں۔

ساتھیو،

بھارت کے کارپوریٹ سیکٹر ، پرائویٹ سیکٹراور سماجی تنظیموں نے مسلسل ملک کی صحت خدمات کو مستحکم بنانے کے لیے تعاون کیا ہے۔ آیوشمان بھارت –پی ایم جے اے وائی بھی اس کی بہترین مثال ہے۔ اس اسکیم کے تحت سوا دو کروڑ سے زیادہ مریضوں کا مفت علاج ہو چکا ہے۔ اور یہ علاج سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں میں بھی ہوا ہے۔ آیوشمان اسکیم سے جو ملک کے ہزاروں اسپتال جڑے ہیں ان میں سے تقریباً 10 ہزار پرائیویٹ سیکٹر کے ہی ہیں۔

ساتھیو،

سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر کے درمیان یہی شراکت داری طبی بنیادی ڈھانچے اور طبی تعلیم کی شاندار توسیع میں بھی کام آ رہی ہے۔ آج جب ہم ملک کے ہر اضلاع میں کم از کم ایک میڈیکل کالج تیار کرنے پر زور دے رہے ہیں تو اس میں پرائیویٹ سیکٹر کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ اسی شراکت داری پر زور دینے کے لیے طبی تعلیم سے منسلک گورننس میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کیے گئے ہیں۔ نیشنل میڈیکل کمیشن کی تشکیل کے بعد بھارت میں پرائیویٹ میڈیکل کالج کھولنا مزید آسان ہوا ہے۔

ساتھیو،

ہمارے یہاں کہا گیا ہے – دان دیے دھن نہ گھٹے، ندی نہ گھٹے نیر ۔ یعنی عطیہ کرنے سے دولت کم نہیں ہوتی ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا ہے اس لیے جتنی خدمت کریں گے، عطیات دیں گے اتنی ہی دولت میں اضافہ ہوگا ۔ یعنی ایک طرح سے ہم جو عطیہ کرتے ہیں، خدمات انجام دیتے ہیں۔ وہ ہماری ہی ترقی کا وسیلہ بنتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آج ہریانہ کے جھجھر میں وشرام سدن کی تعمیر ایک پراعتماد سدن کے طور پر بھی ابھر رہا ہے۔ یہ وشرام سدن پراعتمام سدن کا بھی کام کرتا ہے۔ ملک کے دیگر لوگوں کو بھی ایسے ہی مزید وشرام سدن بنانے کی ترغیب دیگا۔ مرکزی حکومت اپنی طرف سے بھی کوشش کر رہی ہے کہ ملک میں جتنے بھی ایمس ہیں یا جتنے نئے ایمس بن رہے ہیں وہاں پر نائٹ شیلٹرس ضرور بنے۔

ساتھیو،

اپنی بیماری سے پریشان مریض اور اس کے رشتہ داروں کو تھوڑی سی بھی سہولت مل جاتی ہے تو بیماری سے لڑنے کے لیے ان کے حوصلے میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ سہولیت دینا بھی ایک طرح سے خدمت ہی ہے۔ جب مریض کو آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت مفت میں علاج ملتا ہے تو وہ اس کی خدمت ہوتی ہے۔ یہ خدمت کا جذبہ ہی ہے جس کی وجہ سے ہماری حکومت نے کینسر کے تقریباً 400 دواؤں کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ یہ خدمت کا جذبہ ہی ہے جس کی وجہ سے غریبوں کو جن اوشدھی کیندروں سے بہت سستی، بہت معمولی قیمتوں میں ادویات فراہم کی جا رہی ہیں۔ اور متوسط طبقے کے کنبے جن کے گھر میں کبھی سال بھر دوائیاں لینی پڑتی ہیں ایسے کنبے کو سال میں د10،12اور15 ہزار روپیے کی بچت ہو رہی ہے۔ اسپتالوں میں ہر طرح کی ضروری سہولیات ملے ، اپائنمنٹ آسان اور سہولت پزیر ہو۔ اپائنمنٹ میں کوئی مشکلات درپیش نہ آئے اس پر بھی توجہ مبذول کی جا رہی ہے۔ میں مطمئن ہوں کہ آ ج بھارت میں انفوسس فاؤنڈیشن جیسے دیگر ادارے ، سیوا پرمو دھرما: کے اسی خدمت کے جذبے سے غریبوں کی مدد کر رہے ہیں۔ ان کی زندگی کو سہل بنا رہے ہیں۔ اور جیسا کہ ابھی سودھا جی نے بڑی تفصیل سے پترم –پشمم کی بات کہی  اور میں سمجھتا ہوں کہ سبھی اہل وطن کا یہ فریضہ ہے کہ زندگی میں جب بھی ،جہاں بھی، کسی کو بھی خدمت کے جذبے سے کام کرنے کا موقع ملے ۔ہمیں کبھی بھی اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ آزادی کے اس مبارک موقع پر ایک مضبوط صحت کی دیکھ ریکھ کے نظام کو تیار کرنے کی سمت میں ہندوستان تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ گاؤں گاؤں تک پھیلے ہیلتھ اینڈ ویلنیس سنٹر، ای – سنجیونی کے ذریعہ ٹیلی میڈیسن کی سہولت صحت کے شعبے میں ہیومن ریسورس ڈولپمنٹ ، نئے طبی اداروں کی تعمیر ملک کے گوشے گوشے میں اس سے وابستہ کام جاری ہے۔ یہ عہد یقینی طور پر بہت بڑا ہے لیکن اگر سماج اور حکومت کی پوری طاقت اس میں صرف ہوگی تو ہم ہدف کو بہت جلد حاصل کر لیں گے۔ آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ کچھ وقت پہلے ایک جدت طرازی کی پہل ہوئی تھی ،سیلف فار سوسائیٹی اس سے جڑ کر ہزاروں ادارے اور لاکھوں لوگ سماج کے مفاد میں اپنا تعاون پیش کر رہے ہیں۔ مستقبل میں ہمیں اپنی کوششوں کو مزید منظم طریقے سے آگے بڑھانا ہے، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جوڑنا ہے، بیداری میں اضافہ کرنا ہے۔ آزادی کے امرت مہوتسو کے موقع پر ایک صحت مند اور ثمر آور مستقبل کے لیے ہم سبھی کو مل کر کام کرتے رہنا ہوگا۔ اور یہ سب کی کوششوں سے ممکن ہوگااور سماج کی اجتماعی کوششوں سے ہی ہوگا۔ میں ایک بار پھر سودھا جی ، انفوسس فاؤنڈیشن کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔  آج جب ہریانہ کی سرزمین سے لوگوں سے بات کر رہا ہوں تو میں ضرور کچھ اور بھی بتانا چاہتا ہوں ۔ میری خوش قسمتی رہی ہے کہ ہریانہ سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔زندگی کے ایک طویل وقت تک  مجھے ہریانہ میں کام کرنے کا موقع ملا ہے۔میں نے وہاں بہت سی حکومتوں کو قریب سے دیکھا ہے۔ کئی دہائیوں کے بعد ہریانہ کو منوہر لال کھٹر جی کی قیادت میں ایمانداری سے کام کرنے والی حکومت ملی ہے۔ ایک ایسی حکومت ملی ہے جو رات دن ہریانہ کے روشن مستقبل کے لیے سوچتی ہے۔میں جانتا ہوں کہ ابھی میڈیا کی توجہ ایسی تخلیقی اور مثبت امور پر کم ہوگئی ہے۔لیکن کبھی نہ کبھی جب ہریانہ کے کاموں کا جائزہ لیا جائے گا تو گزشتہ پانچ دہائی میں سب سے بہترین طریقے سے اور دوراندیشی کے ساتھ کام کرنے والی  جو حکومت ہوگی وہ ہریانہ کی کھٹر حکومت ہوگی۔ میں منوہر لال جی کو برسوں سے جانتا ہوں لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ وزیراعلی کے طور پر ان کی صلاحیت جس طرح سے نکھر کر سامنے آئی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ جس طرح سے متنوع پروگراموں کو دلچسپی سے انجام دیتے ہیں ، جس طرح سے وہ انوویٹیو پروگرام کرتے ہیں، اس کی جتنی ستائش کی جائے وہ کم ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کبھی کبھی بھارت سرکار کو بھی لگتا ہے کہ ہریانہ کی طرز حکمرانی پورے ملک میں نافذ کرنی چاہیے۔ اور ایسے کچھ اقدامات ہم نے بھی کئے ہیں اس لیے آج جب میں ہریانہ کی سرزمین پر موجود ہوں ان سے میں بات کر رہا ہوں تو میں ضرور کہوں گا کہ منوہر لال جی کی قیادت میں جس طرح ہریانہ کی خدمت کی  گئی ہےوہ ہریانہ کے روشن مستقبل کی بہت بڑی طاقت بننے والی ہے۔میں آج پھر منوہر لال جی اور ان کی پوری ٹیم کو عزم مصمم کے ساتھ کام کرنے کے لیے  عوام کے سامنے بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ اور آپ سب کا بھی میں تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

Recommended