یورپ اور شمالی امریکا میں منکی پاکس کی وَبابیلجیم اوراسپین میں ہم جنس پرستوں کے درمیان تعلقات سے پھیلنے کا اندیشہ
عالمی ادارہئ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے 70 سے زیادہ ممالک میں پھیلنے والی آبلہئ بندر(منکی پاکس) کی وَبا کو”غیر معمولی“ صورت حال کے پیش نظرعالمی ایمرجنسی قراردے دیا ہے۔ڈبلیو ایچ او کے طبی ماہرین کی کمیٹی نے اسی ہفتے آبلۂ بندر کی پھیلتی ہوئی وبا سے پیداہونے والی صورت حال غورکیا تھا اور اس کو ہفتے کے روزعالمی ایمرجنسی قراردیا ہے۔اس اعلان کا یہ مطلب ہے کہ منکی پاکس کی وبا ایک ”غیرمعمولی واقعہ“ ہے اور یہ مزید ممالک میں پھیل سکتی ہے۔اس سے نمٹنے کے لیے مربوط عالمی ردعمل کی ضرورت ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے اس سے قبل صحتِ عامہ کے بحرانوں جیسے کووِڈ-19 وبا، 2014 میں مغربی افریقا میں پھیلنے والی ایبولا کی وبا، 2016 ء میں لاطینی امریکا میں زِکا وائرس اور پولیو کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں کے لیے ہنگامی صورت حال کا اعلان کیا تھا۔ہنگامی اعلان عام طورپرمزید عالمی وسائل کا رْخ وبا کی طرف مبذول کرانے کی درخواست کے طورپرکام کرتا ہے۔ ماضی کے اعلانات نے ملے جلے اثرات مرتب کیے کیونکہ اقوام متحدہ کا ادارہ صحت رکن ممالک سے کارروائی کروانے میں بڑی حد تک بے اختیارہے۔
گزشتہ ماہ ڈبلیوایچ او کے ماہرین کی کمیٹی نے کہا تھا کہ دنیا بھرمیں منکی پاکس کی وبا ابھی تک بین الاقوامی ایمرجنسی کے مترادف نہیں ہے۔تاہم اس پینل کا صورت حال کا ازسرنوجائزہ لینے کے لیے رواں ہفتے اجلاس طلب کیا گیاتھا۔امریکا کے مرکزبرائے انسدادامراض اوربچاؤ(سنٹرفار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن) کے مطابق قریباًمئی سے اب تک 74 ممالک میں منکی پاکس کے 16 ہزار سے زیادہ کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔البتہ آج تک صرف براعظم افریقا میں آبلہ بندر سے اموات کی اطلاع ملی ہے جہاں اس وائرس کی زیادہ خطرناک قسم پھیل رہی ہے اور بنیادی طور پر نائجیریا اور کانگو میں اس سے زیادہ متاثرہ مریضوں کی تشخیص ہوئی ہے۔افریقا میں، منکی پاکس بنیادی طور پر چوہوں جیسے متاثرہ جنگلی جانوروں سے لوگوں میں پھیلتا ہے۔اس نے ماضی میں کبھی وَبائی شکل اختیار نہیں کی اور نہ یہ کسی متاثرہ ملک سے سرحدپارپھیلی ہے۔ تاہم یورپ، شمالی امریکااور دیگر جگہوں پرمنکی پاکس کا وائرس ان لوگوں میں بھی پھیل رہا ہے جن کا جانوروں سے کوئی تعلق نہیں یا جنھوں نے حال ہی میں افریقا کا سفر بھی نہیں کیا ہے۔ڈبلیوایچ او کے منکی پاکس کے سرکردہ ماہر ڈاکٹر روزمنڈ لیوس نے رواں ہفتے کہا تھا کہ افریقا سے ماورا دوسرے ممالک میں منکی پاکس کے تمام متاثرہ کیسوں میں سے 99 فی صد مرد تھے اور ان میں بھی 98 فی صد وہ مرد شامل تھے جن کے دوسرے مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات تھے۔ماہرین کو شْبہ ہے کہ یورپ اور شمالی امریکا میں منکی پاکس کی وَبابیلجیم اوراسپین میں ہم جنس پرستوں کے درمیان تعلقات کے ذریعے پھیلی تھی۔
ساؤتھمپٹن یونیورسٹی میں عالمی صحت کے ایک سینیر ریسرچ فیلو مائیکل ہیڈ کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات پر حیرت ہے کہ ڈبلیوایچ او نے پہلے ہی منکی پاکس کو عالمی ایمرجنسی کیوں قرارنہیں دیا تھا کیونکہ اس کے حالات تو ہفتوں پہلے ہی پورے ہو چکے تھے۔کچھ ماہرین نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا اس طرح کے اعلان سے مدد ملے گی، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ یہ بیماری اتنی شدید نہیں ہے کہ عالمی توجہ مبذول کراسکے۔منکی پاکس سے لڑنے والے امیرممالک کے پاس پہلے ہی اس سے نمٹنے کے فنڈز موجود ہیں۔نیز زیادہ تر لوگ طبی امداد کی ضرورت کے بغیر صحت یاب ہو جاتے ہیں، اگرچہ زخم تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔ہیڈ نے کہا کہ میرے خیال میں بہت دیر ہونے پررد عمل کا انتظار کرنے کے بجائے اس مسئلے پر متحرک ہونا اور حد سے زیادہ رد عمل ظاہرکرنا بہتر ہوگا۔ڈبلیو ایچ او کے ہنگامی اعلان سے عالمی بینک جیسے عطیہ دہندگان کے ذریعے مغرب اور افریقادونوں میں پھیلنے والی وبا کو روکنے کے لیے فنڈز مہیا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
امریکا میں کچھ ماہرین نے یہ قیاس آرائی بھی کی ہے کہ کیا منکی پاکس ملک میں سوزاک،آتشک اور ایچ آئی وی جیسی جنسی طور پر پھیلنے والی بیماری بن سکتی ہے۔ییل یونیورسٹی میں صحت عامہ اور وبائی امراض کے پروفیسر ڈاکٹر البرٹ کو نے کہا کہ ”اصل بات یہ ہے کہ ہم نے منکی پاکس کی وبائی مرض میں تبدیلی دیکھی ہے جہاں اب وسیع پیمانے پرغیر متوقع منتقلی ہو رہی ہے۔ وائرس میں کچھ جینیاتی تبدیلیاں ہوئی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے لیکن ہمیں اس قابوپانے کے لیے عالمی سطح پر مربوط ردعمل کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر کو نے جانچ کا عمل فوری طور پرتیزی سے بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کووڈ-19 کے ابتدائی دنوں کی طرح نگرانی کے عمل میں موجود نمایاں خلا کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ”ہم جو کیس دیکھ رہے ہیں وہ صرف برفانی تودے کی نوک ہیں۔یورپ اور امریکا میں پھیلنے والی وبا کو فوری طور پر روکنے کی کھڑکی شاید ہمارے لیے بند ہوچکی ہے لیکن ابھی زیادہ دیرنہیں ہوئی ہے کہ منکی پاکس کوغریب ممالک کو بھاری نقصان پہنچانے سے روکا جاسکے۔امریکا میں کچھ ماہرین نے قیاس آرائی کی ہے کہ جنسی طور پرپھیلنے والی سب سے نئی بیماری کے طور پر منکی پاکس وہاں گھس سکتا ہے۔حکام نے اندازہ لگایا ہے کہ 15 لاکھ مردوں کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔
بعض طبی سائنس دانوں کاکہنا ہے کہ افریقا اور ترقی یافتہ ممالک میں پھیلنے والی اس وَبا کے بارے میں حیرت انگیز اختلافات کسی بھی مربوط ردعمل کو پیچیدہ بنا دیں گے۔افریقی حکام واضح کرچکے ہیں کہ وہ پہلے ہی براعظم میں اس وَبا کو ہنگامی صورت حال کے طور پر دیکھ رہے ہیں لیکن دیگر مقامات کے ماہرین کے بہ قول یورپ، شمالی امریکا اور اس سے ماورا منکی پاکس کی قدرے کم زور شکل یاقسم ہنگامی اعلان کوغیر ضروری بنا دیتی ہے۔اگرچہ وائرس کو پھیلنے سے روکا نہیں جاسکتا۔دوسری جانب برطانوی حکام نے حال ہی میں اس بیماری کی شدت میں کمی کے پیش نظراس کے بارے میں اپنی تشخیص کی سطح کو کم کر دیا ہے۔