Urdu News

وائرس کی نئی لہریں کیوں آتی ہیں ؟ ڈاکٹر وی کے پال نے سمجھایا

نیتی آیوگ کے رکن (ہیلتھ) ڈاکٹر وی کے پال

 

 

نئی دہلی،2 جون  :’’ ایسے ملک بھی ہیں جہاں ابھی دوسری لہر بھی نہیں آئی ہے۔ اگر ہم وہی کرتے ہیں جو کرنا ضروری ہے، اور اگر ہم  غیر ذمہ دارانہ رویہ میں ملوث نہیں ہیں، تو کووڈ  کا قہر نہیں  ہونا چاہئے۔ یہ  ایک  وبا کی سائنس  کا ایک آسان اصول ہے۔‘‘  نیتی آیوگ کے رکن (ہیلتھ)  ڈاکٹر وی کے پال  نئی وبائی لہروں  کے ابھرنے کے پیچھے  کے اسباب کو واضح کر رہے تھے اور کس طرح  سے  کووڈ  کے تئیں مناسب  برتاؤ  پر عمل کرکے  اور ٹیکہ کاری  جیسی  تدابیر  کرکے  ان کو  کنٹرول یا ٹالا جاسکتا ہے،  یہ بتا رہے تھے۔ وہ آج  پی آئی بی دہلی کے  نیشنل میڈیا سینٹر میں کووڈ  – 19  پر  منعقد  مرکزی وزارت صحت کی میڈیا بریفنگ سے خطاب کر رہے تھے۔

نئی لہریں کیوں  آتی ہیں

ڈاکٹر پال نے کہا کہ 4 اسباب ہیں جن سے نئی لہر  پیدا  ہوتی ہیں۔

1-      وائرس کا برتاؤ:  وائرس میں پھیلنے کی گنجائش اور صلاحیت ہوتی ہے۔

2-      قبول کرنے والا میزبان:  وائرس زندہ رہنے کے لئے اُسے  قبول کرنے والے  میزبان کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس لئے  اگر ہم  ٹیکہ کاری کے توسط سے  یا  پچھلے انفیکشن سے محفوظ نہیں ہیں، تو ہم ایک  قبول کرنے والے میزبان ہیں۔

3-      ترسیل پذیری: وائرس زیادہ اسمارٹ بن سکتا ہے، جہاں  وہ  شکل بدل لیتا ہے، اور زیادہ  ترسیل پذیر ہو  جاتا ہے۔ ایک ہی وائرس جو تین میزبانوں کو  متاثر کیا کرتا تھا، 13  میزبانوں کو  متاثر کرنے  کا اہل  ہو جاتا ہے۔ یہ فیکٹر  غیر متوقع ہے۔ کوئی بھی اس طرح کے وائرس کی بدلی ہوئی  شکل سے لڑنے کے لئے پہلے سے  منصوبہ نہیں  بناسکتا ہے۔ وائرس کی نوعیت  اور  اس کی  ترسیل پذیری  کی تبدیلی  ایک ایکس فیکٹر  ہے اور کوئی بھی  پیش گوئی نہیں کرسکتا کہ یہ کب اور کہاں ہوسکتا ہے۔

4-      موقع: ’موقع‘ جو ہم  وائرس  کو  انفیکشن کے لئے دیتے ہیں۔ اگر ہم ایک ساتھ  بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں، بھیڑ لگاتے ہیں، بنا ماسک کے بند جگہوں پر بیٹھتے ہیں، تو وائرس کو پھیلے کے زیادہ مواقع ملتے ہیں۔

جو ہمارے ہاتھ میں ہے، اسے کرنے پر زور

نیتی آیوگ کے رکن نے  ہمیں یاد دلایا کہ ہمارے ہاتھ میں کیا ہے۔ ’’مندرجہ بالا  4  میں سے دو اسباب  – اثر پذیری  اور  انفیکشن کے مواقع  پوری طرح  سے ہمارے کنٹرول میں ہیں جب کہ دیگر دو  اسباب – وائرس  کا برتاؤ اور  ترسیل پذیری  کی پیش گوئی  یا  کنٹرول نہیں کیا جاسکتا  ہے۔ اگر ہم  محفوظ ہیں اور یہ یقینی بناتے ہیں کہ ہم  بہت زیادہ  حساس نہیں ہیں تو وائرس  زندہ رہ پانے کا اہل نہیں ہوگا۔ ہم ایک ماسک پہنیں یا  ٹیکہ لگانے سے  زیادہ حساسیت  کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ اس لئے اگر ہم  کووڈ  کے تئیں  مناسب برتاؤ پر عمل کرکے  مواقع کو  کم کرتے ہیں  اور  انفیکشن کی اثر پذیری کو کم کردیتے ہیں، تو تیسری لہر نہیں آسکے گی‘‘۔

ڈاکٹر  پال نے ایک اور لہر کو روکنے کے لئے  لوگوں کے ساتھ ساتھ  نظام  کی اجتماعی کوششوں پر بھی  زور دیا۔ ’’ان میں سے  کچھ  انفرادی  کوششوں کی ضرورت ہے، جب کہ کچھ دیگر  اقدام جیسے  کلسٹرس کو  الگ کرنا ،  کانٹکٹ ٹریسنگ،  جانچ  کی صلاحیت کو یقینی بنانا اور بیداری پیدا کرنا جیسے  اقدامات کے لئے نظام کو کام کرنا ہوگا‘‘۔

اسکول کھولنے کا فیصلہ انتہائی  احتیاط سے کیا جانا چاہئے

پابندیوں میں راحت دینے اور اسکولوں کو پھر سے کھولنے کے بارے میں بتاتے ہوئے پال نے کہا کہ اس فیصلے کو احتیاط سے  کرنا ہوگا اور ہمیں تبھی  خطرہ مول لینا چاہئے جب ہم محفوظ ہوں۔ ’’اسکول ایک بھیڑ، ایک میڈیم یا ایک  بڑا مجمع ہے ، جو وائرس کو  انفیکشن  پھیلانے کا موقع دیتے ہیں۔ اس لئے ہمیں  یہ خطرہ تبھی مول لینا چاہئے جب ہم اچھی طرح سے محفوظ ہوں، وائرس کو  ختم کیا جاسکے  اور ہم  فاصلہ  قائم رکھتے ہوئے بیٹھ پائیں۔ لیکن جب غیر متوقع  صورت حال  پیدا ہونے کا امکان ہو ، تو اسکول کھولنے کا فیصلہ   کرنا آسان نہیں ہے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی   ذکر کیا کہ کئی ریاستوں میں  ضابطوں  اور پابندیوں  کی وجہ سے اس وقت وائرس  دبا  ہوا ہے ، اگر ہم  پابندیوں کو کم کرتے ہیں اور اسکول کھولتے ہیں ،تو وائرس  کو انفیکشن پھیلانے کے  مواقع ملتے ہیں۔

 

Recommended