بھارت سرکار ، گنا کسانوں کے گنا بقائے کی مقررہ وقت پر ادائیگی کو یقینی بنانے اور زرعی معیشت کو فروغ دینے کے مقصد سے اضافی چینی کی برآمد اور چینی کو ایتھنول میں تبدیل کرنے کو بڑھایا دینے کے لئے سرگرمی کے ساتھ قدم اٹھا رہی ہے۔ پچھلے کچھ برسوں میں ملک میں چینی کی پیداوار گھریلو کھپت سے زیادہ رہی ہے۔ مرکزی سرکار چینی ملوں کو اضافی چینی کو ایتھنول میں تبدیل کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کررہی ہے اور چینی کی برآمد کو آسان بنانے کے لئے چینی ملوں کو مالی ترغیبات دے رہی ہے جس سے ان کی لکوڈیٹی کی حالت میں بہتری آئے اور انہیں گنا کسانوں کی گنے کی قیمت کی بروقت ادائیگی کا اہل بنایا جاسکے۔
پچھلے تین سیزن 18-2017، 19-2018 اور 20-2019 میں، بالترتیب ، تقریباً 6.2 لاکھ میٹرک ٹن (ایل ایم ٹی)، 38 ایل ایم ٹی اور 59.60 ایل ایم ٹی چینی برآمد کی گئی۔ موجودہ چینی سیزن 21-2020 (اکتوبر -ستمبر) میں، سرکار چینی کے 60 ایل ایم ٹی برآمد کو سہل بنانے کے لئے 6000 ہزار روپئے فی ایم ٹی کی شرح سے امداد فراہم کرارہی ہے۔ 60 ایل ایم ٹی کی برآمد کے ہدف کے مقابلے میں ، تقریباً 70 ایل ایم ٹی کے معاہدوں پر دستخط ہوچکے ہیں۔ چینی ملوں سے 60 ایل ایم ٹی سے زیادہ چینی اٹھائی جاچکی ہیں۔ اور 16 اگست 2021 تک 55 ایل ایم ٹی سے زیادہ کی برآمدات ہوچکی ہے۔
کچھ چینی ملوں نے آئندہ چینی سیزن 22-2021 میں برآمد کے لئے پیشگی معاہدوں پر دستخط بھی کئے ہیں۔ چینی کی برآمد سے مانگ- سپلائی کا توازن بنائے رکھنے اور چینی کی گھریلو ایکس -مل قیمتوں کو مستحکم رکھنے میں مدد ملی ہے۔
اضافی چینی کے مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنے کے سلسلے میں، سرکار چینی ملوں کو اضافی گنے سے ایتھنول بنانے کی حوصلہ افزائی کررہی ہے، جسے پیٹرول کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف گرین ایندھن کا مقصد پورا ہوتا ہے، بلکہ خام تیل کی درآمد کی مد میں غیرملکی زرمبادلہ کی بھی بچت ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ملوں کے ذریعہ ایتھنول کی فروخت سے ہونے والی آمدنی سے چینی ملوں کو کسانوں کے گنا بقایا کی ادائیگی میں بھی مدد ملتی ہے۔ پچھلے دو چینی سیزنوں 19-2018 اور 20-2019 میں تقریباً 3.37 ایل ایم ٹی اور 9.26 ایل ایم ٹی چینی سے ایتھنول بنایا گیا ہے ۔ موجودہ چینی سیزن 21-2020 میں ، 20 ایل ایم ٹی سے ایتھنول بنائے جانے کا امکان ہے۔ آئندہ چینی سیزن 22-2021 میں تقریباً 35 ایل ایم ٹی چینی کو تبدیل کئے جانے کا امکان ہے اور 25-2024 تک 60 ایل ایم ٹی چینی کو ایتھنول میں تبدیلی کرنے کا امکان ہے۔ جس سے اضافی گنا / چینی کے ساتھ ہی تاخیر سے ادائیگی کے مسئلے کا حل نکل آئے گا۔کیونکہ کسانوں کو فوراً ادائیگی ہو جائے گی۔ حالانکہ 25-2024 تک اضافی ڈسٹیلیشن صلاحیت جڑجائے گی ۔ اس لئے چینی کی برآمد مزید دو سے تین سال تک جاری رہے گی۔ پچھلے تین چینی سیزن میں چینی ملوں /ڈسٹلریوں نے تیل مارکٹنگ کمپنیوں (او ایم سی ) کو ایتھنول کی فروخت سے تقریباً 22 ہزار کروڑ روپئے کی آمدنی ہوئی ہے۔ موجودہ چینی سیزن 21-2020 میں ، چینی ملوں کے ذریعہ او ایم سی کو ایتھنول کی فروخت سے تقریباً 15000 کروڑ روپئے کی آمدنی ہورہی ہے جس سے چینی ملوں کو کسانوں کو گنا بقایا کی وقت پر ادائیگی میں مدد ملی ہے۔
پچھلے چینی سیزن 20-2019 میں تقریباً 75845 کروڑ روپئے کے واجب الادا گنا بقائے میں سے 75703 کروڑ روپئے کی ادائیگی کی گئی اور صرف 142 کروڑ روپئے کا بقایا زیرالتوا ہے۔ حالانکہ موجودہ چینی سیزن 21-2020 میں چینی ملوں کے ذریعہ تقریباً 90872 کروڑ روپئے کے گنے کی خریداری کی گئی جو ابھی تک کا ریکارڈ ہے۔ اس میں سے تقریباً 81963 کروڑ روپئے کے گنا بقائے کا کسانوں کو ادا کردئے گئے اور 16 اگست 2021 کو صرف 8909 کروڑ روپئے گنا بقایا کی شکل میں زیر التوا ہے۔ برآمد اور گنے سے ایتھنول بنانے میں اضافہ سے کسانوں کو گنا کی قیمت کی ادائیگی میں تیزی آئی ہے۔
پچھلے ایک ماہ میں چینی کی بین الاقوامی قیمت میں اچھا خاصا اضافہ ہوا ہے اور بین الاقوامی بازار میں بھارتی را شوگر کی مانگ کافی زیادہ ہے، اسے دیکھتے ہوئے سی اے ایف اینڈ پی ڈی وزارت نے سبھی چینی ملوں کے لئے ایڈوائزری جاری کی ہے کہ آئندہ چینی سیزن 22-2021 کے آغاز سے ہی را شوگر کی پیداوار کا منصوبہ بنایا جانا چاہئے اور چینی کو اونچی بین الاقوامی قیمت اور عالمی کمی کا فائدہ اٹھانے کے لئے درآمدکاروں کے ساتھ پیشگی معاہدہ کرنا چاہئے۔ چینی کی برآمد اور چینی سے ایتھنول بنانے والی چینی ملوں کو گھریلو بازار میں فروخت کے لئے اضافی ماہانہ گھریلو کوٹہ کی شکل میں فروغ بھی دیا جانا چاہئے۔
زیادہ سے زیادہ چینی سے ایتھنول بنانے اور زیادہ چینی کی برآمد سے چینی ملوں کی لکویڈٹی میں بہتری آئے گی جس سے وہ کسانوں کے گنا بقائے کی وقت پر ادائیگی کرنے کی حالت میں ہوں گی بلکہ اس سے گھریلو بازار میں چینی کی ایکس-مل قیمتوں میں استحکام بھی آئے گا۔ اس سے چینی ملوں کی آمدنی میں بہتری آئے گی اور اضافی چینی کے مسئلے کا بھی حل ہوگا۔ بلینڈنگ کی سطح میں بہتری کے ساتھ، قدرتی ایندھن کی درآمد پر انحصار میں کمی آئے گی اور فضائی آلودگی میں بھی کمی آئے گی،اس سے زرعی معیشت میں بھی بہتری آئے گی۔