نئی دہلی، یکم اپریل 2022:
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری آئین ہند کی دفعہ 124، 217 اور 224 کے تحت کی جاتی ہے، جس میں کسی ذات یا طبقے کے افراد کو ریزرویشن فراہم نہیں کیا جاتا ہے۔ کالجیم نظام کے ذریعے آئینی عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے موجودہ سسٹم میں درج فہرست ذاتوں/ درج فہرست قبائل/ دیگر پسماندہ ذاتوں/ خواتین/ اقلیتوں سمیت معاشرے کے تمام طبقات کو سماجی تنوع اور نمائندگی فراہم کرنے کی ذمہ داری بنیادی طور پر عدلیہ پر عائد ہوتی ہے۔ حکومت کسی بھی ایسے شخص کو ہائی کورٹ کا جج مقرر نہیں کر سکتی جس کی سفارش ہائی کورٹ کالجیم/ سپریم کورٹ کالجیم نہیں کرتی ہے۔
تاہم حکومت اعلی عدلیہ میں ججوں کی تقرری میں سماجی تنوع کے لیے عہد بستہ ہے اور ہائی کورٹوں کے چیف جسٹسوں سے درخواست کرتی رہی ہے کہ ججوں کی تقرری کے لیے تجاویز بھیجتے وقت ہائی کورٹوں میں ججوں کی تقرری میں سماجی تنوع کو یقینی بنانے کے لیے درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل، دیگر پسماندہ طبقات، اقلیتوں اور خواتین سے تعلق رکھنے والے مناسب امیدواروں پر مناسب غور کیا جائے۔
01.01-2021 سے 30.03.2022 تک سپریم کورٹ کالجیم نے ہائی کورٹ کے ججوں کے طور پر تقرری کے لیے 39 خواتین کی سفارش کی ہے جن میں سے 27 خواتین کا تقرر کیا گیا تھا اور باقی 12 معاملے کارروائی کے مختلف مراحل میں ہیں۔
یہ اطلاع مرکزی وزیر قانون و انصاف جناب کرن رجیجو نے آج لوک سبھا میں ایک تحریری جواب میں دی۔